شام کے خلاف برطانیہ کی متوقع کارروائی، فیصلہ جلد متوقع
12 اپریل 2018گزشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام میں میزائل حملوں کی دھمکی دی تھی جس کے بعد فرانس نے ان کے اس اقدام کی حمایت کا اعلان کیا ۔ تاہم برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے کی جانب سے وزراء کا ایک اہم اجلاس آج بلایا گیا ہے جس میں شام پر امریکی حملے میں ساتھ دینےکے حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا۔
بعض پارلیمانی ممبران شام کے پیچیدہ مسئلے میں برطانیہ کی شمولیت پر خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود متعدد برطانوی اخباروں نے دعویٰ کیا ہے کہ برطانیہ کی رائل بحیرہ کی آبدوزیں اور کروز میزائل، امریکا کے ساتھ حملے میں حصہ لینے کے لیے تیار ہیں۔ برطانوی اخبار ’دی ٹائمز‘ اور ’ڈیلی ٹیلیگراف‘ کی رپورٹوں کے مطابق امید ہے کہ وزراء آج بلائی جانے والی اس میٹنگ میں شامی صدر بشار الاسد کے خلاف متوقع امریکی حملے میں ساتھ دینے کی تائید کر دیں گے۔
جدید اور اسمارٹ میزائل آ رہے ہیں، روس تیار رہے، ٹرمپ
ٹرمپ کا شام میں ممکنہ عسکری کارروائی کا عندیہ، روس کی تنبیہ
دوسری جانب امریکا کا کہنا ہے کہ شام میں حکومت کی جانب سے دوما پر کیے گئے مبینہ کیمیائی حملے کے جواب میں اس کے پاس ’تمام آپشنز موجود ہیں‘ ۔ تاہم وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ سینڈرز نے صحافیوں کو بتایا ہےکہ فوجی کارروائی کے بارے میں تاحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی صدر کے پاس کئی راستے موجود ہیں اور ابھی تک ’ہم نے مخصوص کارروائیوں کے بارے میں کوئی منصوبہ ترتیب نہیں دیا۔‘
اس سے قبل امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ’روس تیار رہو میزائل آ رہے ہیں۔ بہترین، نئے اور سمارٹ۔ تمھیں گیس سے لوگوں کو ہلاک کرنے والے جانور کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔‘
صدر ٹرمپ نے روس پر بھی سخت نکتہ چینی کی اور کہا کہ وہ شام کے صدر بشارالاسد کی حمایت کر رہا ہے۔ جس کے جواب میں روس نے انتباہ کیا کہ وہ شام کی جانب آنے والے تمام میزائلوں کو مار گرائے گا۔
ع ف ، ع ت/ رائٹرز، اے پی