شام کے خلاف قرارداد پر یورپی طاقتوں کا زور
2 اگست 2011گزشتہ روز متعدد سفارتکاروں نے کئی گھنٹے بند دروازوں کے پیچھے ہونے والے مذاکرات میں حصہ لیا۔ ان سفارتکاروں کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شام کے خلاف کسی مشترکہ ایکشن کےبارے میں کئی ماہ سے چلے آ رہے ڈیڈ لاک یا جمود کو حالیہ صورتحال کے پیش نظر توڑنے میں مدد ملے گی۔ تاہم مندوبین نے ایک بار پھر اس امر پر عدم اتفاق کا اظہار کیا کہ آیا 15 ممالک پر مشتمل باڈی کو مغربی طاقتوں کے ایماء پر تیار شدہ مسودہ قرار داد منظورکرلینی چاہیے یا شام کے خلاف اس قرارداد کو قابل عمل بنانے کے بارے میں مزید بات چیت کی جائے۔
اس میٹینگ کی درخواست جرمنی کی طرف سے اُن واقعات کے بعد کی گئی جب گزشتہ اتوار کو شامی فوج نے شہر حماہ میں حکومت کے مخالفین کے خلاف ایک کریک ڈاؤن میں 80 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
شہرحماہ صدر بشار الاسد کے خلاف کئی ماہ سے سراپا احتجاج بنی ہوئی اپوزیشن کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ حکومت کو سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا اسی شہر میں ہے اس لیے وہ حماہ میں فوجی آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے۔ حماہ کے شہریوں کے مطابق گزشتہ روز، پیر کو بھی وہاں سکیورٹی فورسز کی کارروائی جاری رہی۔
اقوام متحدہ میں شام کے خلاف سخت تر ایکشن لینے کے ضمن میں مختلف ممبر ممالک کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ دو ماہ قبل یورپی ممالک نے ایک مسودہ قرارداد پیش کیا تھا تاہم یہ آواز اُسی وقت اس لیے دب کر رہ گئی کہ دمشق حکومت کے دو اہم حلیف چین اور روس نے ویٹو کی دھمکی دے دی۔ ساتھ ہی سلامتی کونسل کے غیر مستقل اراکین برازیل، بھارت، لبنان اور جنوبی افریقہ نے بھی کہہ دیا تھا کہ وہ یورپی قرارداد کے مسودے کا ساتھ نہیں دیں گے۔
چند ناقدین نے کہا ہے کہ یورپی طاقتوں کی طرف سے شام کی حکومت کی محض مذمت ہی شام میں مغربی فوجی مداخلت کا پہلا قدم ثابت ہو سکتی ہے، جس طرح ابھی حال ہی میں لیبیا میں ہو چکا ہے۔ دریں اثناء اقوام متحدہ میں متعین امریکی سفارتکار ’سوزن رائس‘ نے ان مفروضات کو من گھڑت کہانی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یورپی طاقتوں کی طرف سے پیش کردہ قرار داد میں ایسی کوئی شق موجود نہیں ہے، جس سے شام میں ممکنہ فوجی مداخلت کی نشاندہی ہو۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: امتیاز احمد