1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کے خلاف ممکنہ امریکی فوجی کارروائی مؤخر اور عالمی ردعمل

عابد حسین1 ستمبر 2013

امريکی صدر باراک اوباما کے شام کے خلاف کسی بھی فوجی کارروائی سے قبل امریکی کانگریس کی رضامندی حاصل کرنے کے فیصلے کے بعد کئی ملکوں کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ ان میں فرانس بھی شامل ہے۔

تصویر: Reuters

صدر باراک اوباما نے شام کے خلاف ممکنہ امریکی فوجی کارروائی غیر متوقع طور پر مؤخر کرتے ہوئے امریکی کانگریس کو ایک مسودہ قانون ارسال کیا ہے۔ امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان کے اسپیکر جان بونیر کے ایک مشیر کے مطابق صدر کا یہ مسودہ اسپیکر آفس کو موصول ہو چکا ہے۔ امریکی کانگریس کا آئندہ اجلاس نو ستمبر کو ہو گا جس میں اس بارے میں بحث کی جائے گی۔

امریکی صدر کے مسودے پر بحث ایوان نمائندگان اور سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹیاں کریں گی۔ سینیٹ میں اکثریتی پارٹی کے لیڈر سینیٹر ہیری ریڈ نے اس بحث کی تصدیق کر دی ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق شام کے خلاف فوجی کارروائی کے حامی سینیٹروں جان مککین اور لنزی گرام نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ وہ امریکی صدر کے شام کے خلاف محدود فوجی کارروائی کے پلان کی حمایت نہیں کریں گے۔شامی میڈیا نے اوباما کے فیصلے کو پسپائی سے تعبیر کیا ہے۔ دوسری جانب شامی اپوزیشن نے امریکی صدر کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اوباما کو امریکی کانگریس سے شام پر حملے کی منظوری حاصل ہو جائے گی۔

شام کے المیے سے لاکھوں انسان متاثر ہیںتصویر: Reuters

فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے کہا ہے کہ وہ شام کے حوالے سے کسی بھی فوجی کارروائی سے قبل اپنے ملک کی پارلیمنٹ کو بھی اعتماد میں لیں گے۔ فرانس کے وزیر داخلہ مانویل ولاس (Manuel Vallas) کا کہنا ہے کہ ان کا ملک شام کے خلاف اکیلے کوئی کارروائی نہیں کرے گا۔ اس مناسبت سے فرانسیسی پارلیمنٹ کا ايک خصوصی اجلاس اگلے بدھ کے روز طلب کر لیا گیا ہے۔ اس اجلاس میں شام کی صورت حال پر بحث کی جائے گی۔ فرانس نے امریکی کانگریس کے فیصلے کا انتظار کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ ادھر بحیرہ روم ميں فرانسیسی نیوی کے پانچ جنگی جہاز کسی بھی کارروائی کے لیے الرٹ ہیں۔ یہ جنگی بحری جہاز بحیرہ روم کے مشرقی حصے میں لنگر انداز ہیں۔ ان جہازوں پر ٹوم ہاک کروز میزائل نصب ہیں۔

ادھر ایک دوسرے یورپی ملک اٹلی کے وزیر اعظم اینریکو لیٹا کا کہنا ہے کہ امریکا اور فرانس یقینی طور پر شام پر حملے کا سوچ رہے ہیں لیکن ان کا ملک اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر اس عمل میں شریک نہیں ہو گا۔ روس کے صدر ولادی میر پوٹن نے امریکی صدر پر زور دیا ہے کہ وہ فوجی کارروائی سے قبل اس پہلو پر غور کریں کہ آیا اس عمل سے شام میں تشدد کا خاتمہ ہو جائے گا اور سویلینز کی ہلاکتیں نہیں ہوں گی۔

شام میں اقوام متحدہ کے معائنہ کار متاثرہ مقامات کا دورہ مکمل کر کے ہالینڈ پہنچ گئےتصویر: picture-alliance/dpa

اسرائیل نے بھی اہم کاروباری و مالی مرکز تل ابیب کے علاقے میں آئرن ڈوم میزائل ڈیفینس سسٹم کی تنصیب کر دی ہے۔ اسرائیل کو خدشہ ہے کہ امریکا یا مغربی اقوام کی جانب سے کسی بھی حملے کی صورت میں شام اسرائیلی علاقوں پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کر سکتا ہے۔ دوسری جانب ایران کی پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کے سربراہ علیم الدین بروجری نے شام کو مکمل حمایت کا یقین دلانے کے لیے شامی دارالحکومت کا دورہ مکمل کر لیا ہے۔ بروجری کے مطابق شام پر حملہ صرف شامی سرحدوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کے منفی اثرات سارے خطے پر مرتب ہوں گے۔

مشرق وسطیٰ میں ایک اور امریکی اتحادی ملک اردن کے وزیر اطلاعات محمد مومنی کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ تمام سفارتی ذرائع کے استعمال کے بعد ہی امریکا کسی فوجی ایکشن کے آپشن کو استعمال کرے گا۔ اردن میں شام پر ممکنہ امریکی حملے کے تناظر میں ایک عوامی مظاہرہ بھی ہوا اور اس میں اس حملے کی مخالفت کی گئی۔ مظاہرین نے احتجاج کے دوران امریکی جھنڈے کو نذر آتش بھی کیا۔ دوسری جانب عرب لیگ کا آج ایک اجلاس ہو رہا ہے اور اس میں اسد حکومت کے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی مذمت کیے جانے کے امکان کے علاوہ نئی صورت حال پر غور کیا جائے گا۔

دريں اثناء شام میں اقوام متحدہ کے معائنہ کار متاثرہ مقامات کا دورہ مکمل کر کے ہالینڈ پہنچ گئے ہیں۔ وہ متاثرہ علاقوں سے مختلف نمونے بھی لائے ہیں اور اب ان پر یورپی لیبارٹریوں میں پوری طرح ٹیسٹس کیے جائیں گے۔ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں نے یہ سیمپلز چار دنوں میں اکھٹے کیے اور اب ان کو مختلف یورپی لیبارٹریوں کو روانہ کیا جائے گا۔ ان سیمپلز میں متاثرہ علاقوں کی مٹی بھی شامل ہے۔ ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں قائم کیمیائی ہتھیاروں کے انسداد کے ادارے کو متاثرہ مقامات میں رہنے والے افراد کے خون اور پیشاب کے نمونے بھی روانہ کیے جائیں گے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں