1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کے ساتھ دو اہم سرحدی گزر گاہيں کھول دی گئيں

15 اکتوبر 2018

اسرائيل نے گولان کے مقبوضہ پہاڑی علاقے ميں شام کے ساتھ قنيطرہ نامی سرحدی گزرگاہ کھول دی ہے جبکہ اسی دوران تجارت اور امدادی اشياء کی ترسيل کے ليے اردن اور شام کے درميان بھی ايک اہم گزر گاہ کھول دی گئی ہے۔

UN Friedensmission Golan Höhen
تصویر: Getty Images/J. Guez

گولان کے مقبوضہ پہاڑی علاقے ميں قنيطرہ نامی اہم سرحدی گزر گاہ کو رواں ہفتے کے آغاز پر دوبارہ کھول ديا گيا ہے۔ سرحدی گزر گاہ کے کھولنے کے ليے پندرہ اکتوبر کو باقاعدہ ايک تقريب منعقد کی گئی، جس ميں اقوام متحدہ کے نمائندے بھی شريک تھے۔ اسرائيل نے سن 2014 ميں شامی خانہ جنگی کے سبب يہ کراسنگ بند کر دی تھی۔ شامی باغيوں کی چھڑھائی کے بعد اقوام متحدہ کے دستے وہاں سے نکل گئے تھے۔ شامی صدر بشار الاسد کی افواج نے قنيطرہ کے علاقے کو رواں سال جولائی ميں بازياب کرايا۔ اب اس سرحدی گزر گاہ کو دوبارہ فعال بنا ديا گيا ہے۔

واضح رہے کہ اس علاقے ميں اقوام متحدہ کی زير نگرانی اسرائيل اور شام کے مابين عسکری سرگرمياں بند رکھنے سے متعلق ايک معاہدے پر عملدرآمد سن 1974 جاری ہے۔ بتايا گيا ہے کہ یہ گزر گاہ کھلنے کے بعد اقوام متحدہ کے امن دستوں کے استعمال ميں رہے گی۔ اسرائيلی فوج کے ترجمان ليفٹيننٹ کرنل جوناتھن کونريکوس کے بقول اقوم متحدہ کے دستوں نے اسرائيلی علاقے ميں اپنی پوزيشنيں سنبھال لی ہيں۔

دريں اثناء پير پندرہ اکتوبر کو ہی ہونے والی اسی طرز کی ايک اور پيش رفت ميں اردن اور شام کے درميان بھی ايک اہم سرحدی گزر گاہ کو کھول ديا گيا۔ اردنی سر زمين پر جابر اور شامی سرزمين پر نصيب کے نام سے جانی جانے والی يہ گزر گاہ پچھلے تين سال سے بند پڑی تھی۔ دونوں ملکوں کے مابين آمد و رفت و تجارت کا اہم ذريعہ بننے والی اس گزر گاہ کو اردن حکومت نے اپريل 2015ء ميں شامی باغيوں کی جانب سے اس علاقے پر قبضے کے بعد بند کر ديا تھا۔

اس سرحدی گزر گاہ سے منسلک علاقے کو شامی حکومت کے دستوں نے روس کی ثالثی ميں طے پانے والی ايک ڈيل کے بعد جولائی ميں بازياب کرايا تھا۔ اردن کا برآمدات اور بيرونی امدادی اشياء پر دار و مدار ہے اور اکثريتی سامان شام سے گزرتا ہے۔ مارچ سن 2011 ميں شامی خانہ جنگی کے آغاز سے قبل اردن اور شام کے مابين تجارت کا حجم 530 ملين يورو کے لگ بھگ تھا۔

يہ پيش رفت نہ صرف شامی اقتصاديات کے ليے اچھی ہے بلکہ اسے اسد حکومت کی سفارتی کاميابی کے طور پر بھی ديکھا جا رہا ہے۔

ع س / ا ا، نيوز ايجنسياں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں