شام کے ليے امداد کی فراہمی رُک گئی: سلامتی کونسل منقسم
11 جولائی 2020
خانہ جنگی کے شکار ملک شام ميں لاکھوں متاثرين کے ليے امداد جاری رکھنے کا معاملہ بين الاقوامی قوتوں کے اختلافات کی نظر ہو گيا ہے۔ سلامتی کونسل ميں گزشتہ روز جرمنی اور بيلجيم کی ايک قرارداد کو روس اور چين نے ويٹو کر ديا۔
اشتہار
جنگ زدہ ملک شام ميں متاثرين کے ليے انسانی بنيادوں پر امداد کی فراہمی کو يقينی بنانے کے ليے بين الاقوامی برادری کسی اتفاق رائے پر نہيں پہنچ پائی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ميں گزشتہ روز جرمنی اور بيلجيم کی جانب سے پيش کردہ قرارداد کو روس اور چين نے ويٹو کر ديا۔
شام کے جنگ زدہ علاقوں تک امداد پہنچانے سے متعلق ايک معاہدے پر عملدرآمد سن 2014 سے جاری تھا تاہم جمعے دس جولائی کی شب اس معاہدے ميں توسیع سے متعلق قرارداد منظور نہ ہونے کے باعث اب شام تک امداد پہنچانے کا کوئی راستہ نہيں بچا۔ واضح رہے کہ چين اور روس نے اسی ہفتے ميں دوسری مرتبہ ويٹو کا حق استعمال کيا۔ اس سے قبل روس نے بھی ايک قرارداد پيش کی تھی، جس کی تين ممالک نے حمايت کی جبکہ سات نے مخالفت کی۔
جمعے کی شب کی پيش رفت کے بعد يورپی رياستوں جرمنی اور بيلجيم کے حکام اب بھی قرارداد کے مسودے ميں تراميم کی کوششوں ميں ہيں تاکہ ہفتے يا اتوار تک اسے دوبارہ ووٹنگ کے ليے پيش کيا جا سکے۔ جرمن سفير کرسٹوف ہيوزگن نے ديگر سفارت کاروں پر زور ديا کہ وہ شام ميں ان کئی ملين افراد کے بارے ميں سوچيں، جن کا اس امداد پر دارومدار ہے۔
قرارداد ميں رکاوٹ کيا ہے؟
چين اور روس امداد ميں کمی کے خواہشمند ہيں جبکہ ان کی يہ بھی خواہش ہے کہ امداد صدر بشار الاسد کی افواج کے زير کنٹرول گزر گاہوں سے بھی گزرے۔ اس وقت دو مقامات سے امداد پہنچائی جاتی ہے اور روس چاہتا ہے کہ مستقبل ميں صرف ايک ہی مقام سے ايسا ہو۔ يورپی اقوام اور امريکا ترک سرحد پر واقع دو گزرگاہوں سے امداد کی فراہمی چاہتے ہيں۔ ان ميں سے ايک باب الاسلام ہے، جس کے ذريعے حلب تک امداد پہنچائی جاتی ہے اور دوسری باب الاہوا ہے، جس کے ذريعے ادلب کے متاثرين تک ضروری سامان پہنچايا جاتا ہے۔
اسی اختلاف کی بنياد پر چين اور روس اسی ہفتے پہلے بھی ايک مرتبہ جرمنی اور بيلجيم کی طرف سے پيش کردہ ايک قرارداد کو ويٹو کر چکے ہيں، جس کو تيرہ ممالک کی حمايت حاصل تھی۔
روس اور چين کا يہ بھی موقف ہے کہ بطور ايک ادارہ اقوام متحدہ شام کی خود مختاری اور سالميت کا احترام نہيں کرتا، جو کہ غلط ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ امدادی سامان کی فراہمی کے ليے دمشق حکومت کو بھی مختلف مراحل ميں شامل کيا جائے۔ روس نے اپنی قرارداد ميں صرف باب الاہوا کو کھلا رکھنے کو تجویز کیا تھا۔ اسی راستے کے ذريعے پچاسی فيصد امداد کی ترسيل ممکن ہوتی ہے۔ تاہم يورپی ممالک اور امريکا کسی صورت صرف ايک گزر گاہ سے امداد کی فراہمی کے حق ميں نہيں۔ امريکی سفير کے مطابق صرف ايک گزر گاہ سے امداد فراہم کرنے سے 1.3 ملين افراد تک امداد کی فراہمی رک جائے گی۔
’ہميں کہيں بھول نہ جانا‘
کورونا وائرس کے بحران کے باعث کئی عالمی مسائل و تنازعات آج کل عدم توجہ کا شکار ہيں۔ موسمياتی تبديلياں، کشمير ميں بندشيں، ليبيا ميں جنگ، شام ميں شورش اور افغانستان کی صورتحال سميت دنيا کو آج بھی کئی مسائل کا سامنا ہے۔
تصویر: DW/ P. Vishwanathan
موسمياتی تبديلياں
زمين کے درجہ حراست ميں اضافہ، بے لگام معاشی سرگرمياں، برف پگھلنے سے سطح سمندر ميں اضافہ، فضائی آلودگی، پلاسٹک کا بے دريغ استعمال، حياتياتی تنوع ميں کمی جيسے مسائل سے زمين کو خطرات لاحق ہيں۔ سائنسدان بارہا خبردار کر چکے ہيں کہ ان عوامل کو روکنے کے ليے وقت بہت محدود ہے۔ ايک مطالعے ميں يہ بات بھی سامنے آئی کہ انسانی سرگرمياں قدرتی ماحول کی تباہی کی ذمہ دار ہيں اور نئے نئے وائرسوں اور بيماريوں کی بھی۔
تصویر: picture-alliance/AP/Imaginechina
ڈگمگاتی ہوئی افغان امن ڈيل
افغانستان ميں اٹھارہ سالہ جنگ کے خاتمے کے ليے حال ہی ميں امريکا اور طالبان کے مابين ڈيل طے ہوئی۔ البتہ کبھی قيديوں کے تبادلے پر اختلاف، کبھی مختلف افغان دھڑوں ميں عدم اتفاق تو کبھی وقفے وقفے سے حملوں کے باعث اس ڈيل کا مستقبل اب بھی غير واضح دکھائی ديتا ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ افغانستان ميں دو ہزار کے قريب ’اسلامک اسٹيٹ‘ کے جنگجو بھی سرگرم ہيں، جو امن و امان کی کسی بھی اميد کو توڑنے کے ليے سرگرم ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Sayed
پاک بھارت کشيدگی اب بھی برقرار
پلوامہ حملے کے بعد سے پاکستان اور بھارت ميں کشيدگی رہی ہے۔ ان دنوں دونوں ترقی پذير ممالک کو وبا کا سامنا ہے البتہ سرحد پر صورتحال ميں اب بھی کوئی تبديلی نہيں ديکھی گئی۔ بھارتی فوج کا دعویٰ ہے کہ مارچ ميں پاکستان کی جانب سے لائن آف کنٹرول پار فائرنگ کے چار سو سے زائد واقعات ريکارڈ کيے گئے۔ پاکستان نے بھی سال رواں ميں بھارت پر سات سو سے زائد مرتبہ بلا اشتعال فائرنگ کا الزام عائد کيا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed
بے يار و مددگار کشميری عوام
کشمير ميں گزشتہ برس اگست ميں کيے گئے متنازعہ بھارتی اقدامات کے بعد سے لاک ڈاؤن نافذ تھا جبکہ موجودہ وبا ميں اس پر عملدرآمد اور بھی سخت کر ديا گيا ہے۔ بندشوں کے سبب کشميری عوام کی اقتصادی کمر ويسے ہی ٹوٹی ہوئی تھی۔ کام کاج، کاروبار ہر چيز پچھلے قريب نو ماہ سے بند پڑی ہے۔ وبا سے کشميريوں کے مسائل ميں اور زيادہ اضافہ ہو رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
ايران کی پہلے سے تباہ حال معيشت، مزيد گراوٹ کا شکار
سن 2015 ميں طے پانے والی جوہری ڈيل سے امريکا کی يک طرفہ عليحدگی اور پابنديوں کی بحالی کے سبب ايرانی معيشت کا پہلے ہی بيڑا غرق ہو چکا تھا کہ وبا نے اسے مزيد نقصان پہنچايا۔ ايران مشرق وسطیٰ ميں کورونا کی وبا سے سب سے زيادہ متاثرہ ملک ہے۔ سپريم ليڈر آيت اللہ علی خامنہ ای امريکی مدد ٹھکرا چکے ہيں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اگر امريکا مدد کرنا ہی چاہتا ہے، تو پابندياں اٹھائے، جسے امريکی صدر مسترد کر چکے ہيں۔
تصویر: khabaronline
روہنگيا مہاجرين کا بحران، آج بھی حل طلب
بنگلہ ديشی حکام نے اپريل کے اوائل ميں کوکس بازار ميں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر ديا۔ اس ضلعے ميں لگ بھگ ايک ملين روہنگيا مہاجرين پناہ ليے ہوئے ہيں۔ روہنگيا مہاجرين ميانمار ميں فوج کے مبينہ تشدد سے فرار ہو کر بنگلہ ديش پہنچے تھے۔ اقوام متحدہ کئی رپورٹوں ميں ميانمار ميں کيے گئے اقدامات کا موازنہ ’نسل کشی‘ سے کر چکی ہے۔ اس معاملے پر عالمی فوجداری عدالت ميں کيس بھی جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
يمنی جنگ کے متاثرين لاکھوں
اقوام متحدہ يمن کے بحران کو موجود وقت کا ’بد ترين انسانی الميہ‘ قرار دے چکی ہے۔ پانچ برس سے زائد عرصے سے جاری يمنی جنگ ميں ايک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہيں جبکہ بے گھر ہونے والوں اور قحط کے خطرے سے دوچار افراد کی تعداد کئی ملين ميں ہے۔ سعودی عسکری اتحاد نے اپريل کے اوائل ميں دو ہفتوں کی جنگ بندی کا اعلان کيا تاہم يہ بدحالی کے خاتمے کے ليے ناکافی ہے۔
تصویر: picture alliance / Xinhua News Agency
شامی مسلح تنازعہ آج بھی جاری
شام ميں سن 2011 سے چلی آ رہی خانہ جنگی اب بھی ختم نہيں ہوئی ہے۔ ان دنوں صوبہ ادلب شامی و روسی جنگی طياروں کی بمباری کی زد ميں ہے۔ ابھی پچھلے ہی دنوں صدر بشار الاسد کی افواج پر ماضی میں ایک واقعے میں کيميائی ہتھياروں کے استعمال کا الزام بھی پھر سے لگايا گيا۔ اقوام متحدہ شامی جنگ کے تمام فريقين پر انسانی حقوق کی سنگين خلاف ورزيوں کا الزام عائد کر چکی ہے۔
تصویر: AFP/O. H. Kadour
يورپ کو درپيش مہاجرين کا بحران
سن 2015 ميں مشرق وسطیٰ و شمالی افريقہ سے ايک ملين سے زائد پناہ گزينوں کی يورپ آمد کے تناظر ميں شروع ہونے والا بحران ايک طرح سے آج بھی جاری ہے۔ لاکھوں مہاجرين ترکی، لبنان، اردن اور يورپ کے مختلف ملکوں ميں مہاجر کيمپوں ميں گزر بسر کر رہے ہيں۔ ان میں سب سے برا حال يونانی جزائر پر موجود کيمپوں کا ہے، جن ميں پہلے ہی سے گنجائش سے کہيں زيادہ مہاجرين آباد تھے۔ وبا سے ان افراد کو شديد خطرات لاحق ہيں۔