1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کے مسئلے کا حل، عرب لیگ نے ٹیم تشکیل دے دی

17 اکتوبر 2011

عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے اتوار کے روز ہونے والے اجلاس میں شام میں عوام کے خلاف حکومتی فورسز کی کارروائیوں کی روک تھام اور وہاں صورتحال کے بات چیت کے ذریعے حل کے لیے ایک ٹیم کی تشکیل کا اعلان کیا گیا ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

عرب لیگ کے اعلامیے کے مطابق یہ ٹیم شامی حکومت کو ایک طرف تو شہریوں کے خلاف کارروائیوں سے روکنے کی کوشش کرے گی اور دوسری جانب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کے آغاز کے لیے بھی کوشاں ہو گی۔

اس ٹیم میں الجزائر، مصر، عمان، قطر اور سوڈان کے وزرائے خارجہ کو شامل کیا گیا ہے جبکہ عرب لیگ کے سربراہ نبیل العربی بھی اس کے رکن ہوں گے۔

شام کے حوالے سے قاہرہ میں ہونے والی اس ہنگامی میٹنگ کے بعد ان وزراء نے دمشق حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ جمہوریت پسند مظاہرین کے خلاف تمام تر کارروائیاں فوری طور پر بند کرے اور ہر طرح کے ’تشدد اور قتل عام‘ سے باز رہے۔

شامی صدر بشارالاسدتصویر: picture alliance/dpa

عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے اس اجلاس میں اتفاق ظاہر کیا گیا کہ شامی حکومت اور اپوزیشن سے رابطہ کر کے اگلے 15 روز میں شام کے لیے ایک قومی کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا جائے گا۔

اس سے قبل اتوار کی صبح نبیل العربی نے ایسی اطلاعات کی تردید کر دی تھی، جن میں کہا جا رہا تھا کہ شام میں جمہوریت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کے خونریز کریک ڈاؤن کے تناظر میں عرب لیگ شام کی رکنیت کی منسوخی پر غور کر رہی ہے۔ قاہرہ کے ایک ہوٹل میں وزرائے خارجہ کی بات چیت کے آغاز سے قبل نبیل العربی نے کہا، ’’ہم کسی ایسے معاہدے پر نہیں پہنچے کہ شام کی رکنیت منسوخ کی جائے۔‘‘

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ شام کی رکنیت کی منسوخی پر عرب لیگ کے زیادہ تر ممالک متفق تھے، تاہم لبنان اور یمن نے اس کی پرزور مخالفت کی تھی، جس کے بعد غالباﹰ یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔

عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے اس اجلاس کے دوران قاہرہ میں سینکڑوں شامی باشندوں نے بشارالاسد حکومت کے خلاف زبردست نعرے بازی بھی کی۔

رپورٹ: عاطف توقیر

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں