ترکی شام کے معاملے پر ذمہ داری کا مظاہرہ کرے، میرکل
30 دسمبر 2018
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ وہ ترکی سے توقع کرتی ہیں کہ وہ شام کے معاملے میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑے گا اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے گا۔ انہوں نے یہ بات ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ گفتگو میں کہی۔
اشتہار
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے۔ برلن حکومت کے مطابق میرکل نے ترک صدر کو مشورہ دیا کہ شام کے معاملے پر ترکی کو کسی کارروائی سے باز رہنا چاہیے اور زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
یہ بات چیت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے شام میں تعینات اپنے فوجی وہاں سے واپس نکالنے کے اچانک فیصلے کے تناظر میں ہوئی ہے۔ اس امریکی فیصلے کے بعد شام سمیت پورا خطہ بے بقینی کا شکار ہے۔
جرمن حکومت کے ترجمان کے مطابق میرکل نے ترکی کی جانب سے شامی مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے کے عمل کو سراہا۔ مزید یہ کہ دونوں رہنماؤں نے اقوام متحدہ کی طرف سے شامی تنازعے کے ایک سیاسی حل کی تلاش کے لیے کی جانے والی کوششوں کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ دہشت گرد گروپ داعش کو بظاہر شکست دیے جانے کے باوجود یہ ابھی تک ایک خطرے کے طور پر موجود ہے۔ ترک نیوز ایجنسی انادولو کے مطابق دونوں رہنماؤں نے قریبی رابطے برقرار رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔ مزید یہ کہ دونوں رہنماؤں نے مہاجرت اور دہشت گردی کے معاملے پر بھی بات کی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ شام میں تعینات امریکی فوجیوں کی واپسی شروع کر رہے ہیں۔ اس فیصلے سے شام میں سرگرم مرکزی کُرد ملیشیا پیپلز پروٹیکشن یونٹ یا YPG کو بھی دھچکا پہنچا ہے جو امریکی حمایت کے ساتھ دہشت گرد گروپ داعش کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے۔
انقرہ حکومت وائی پی جی کو کالعدم کُرد تنظیم کردستان ورکرز پارٹی کا حصہ تصور کرتی ہے۔ اسی باعث ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اعلان کیا تھا کہ ترکی شام میں کُرد ملیشیا کے خلاف ملٹری کارروائی کرے گا۔
شام میں ترک فوجی آپریشن، جرمنی میں کردوں کے احتجاجی مظاہرے
ترکی کی جانب سے شمالی شام میں کرد اکثریتی علاقوں میں کیے جانے والے عسکری آپریشن کے تناظر میں جرمنی میں آباد کرد نسل کے باشندوں کے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
کردوں کے مظاہرے
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں شام اور عراق کے کرد علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کرد فورسز کے خلاف ترکی کے عسکری آپریشن پر سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین میں کردوں کی اپنی ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
عفرین میں ترک فوجی آپریشن
ترک فورسز شام کے کرد اکثریتی علاقے عفرین اور اس کے گرد و نواح میں ٹینکوں اور بھاری توپ خانے سے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ علاقہ شامی کرد ملیشیا وائی پی جی کے قبضے میں ہے، جو ان کرد جنگجوؤں نے امریکی تعاون سے شدت پسند تنظیم داعش کے قبضے سے آزاد کرایا تھا۔
ایردوآن اور میرکل پر تنقید
مظاہرین جرمنی کی جانب سے ترکی کو فروخت کیے جانے والے ہتھیاروں پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔ ترک صدر ایردوآن تمام تر بین الاقوامی دباؤ کے باوجود کہہ چکے ہیں کہ وہ شام میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف عسکری آپریشن جاری رکھیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Jensen
بون میں بھی مظاہرے
جرمنی میں کرد باشندوں کی جانب سے شہر بون میں اقوام متحدہ کے ایک مرکزی دفتر کے قریب بھی مظاہرہ کیا گیا۔ یہ مظاہرین ترکی کی جانب سے شامی علاقوں میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف آپریشن کی فوری بندش کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: DW/C. Winter
صدر ایردوآن کا سخت موقف
صدر ایردوآن کا کہنا ہے کہ امریکا کرد فورسز کی امداد بند کرے۔ ترکی امریکی حمایت یافتہ کرد ملیشیا گروپ وائی پی جی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ انقرہ کا موقف ہے کہ یہ عسکریت پسند کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی ہی کا حصہ ہیں، جو ایک طویل عرصے سے ترکی میں کرد اکثریتی علاقوں کی باقی ماندہ ترکی سے علیحدگی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/B. Ozbilici
کرد فورسز کو امریکی امداد کی بندش کا ترک مطالبہ
ترک حکومت نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ کرد ملیشیا گروپوں کو ہتھیاروں کی فراہمی فوری طور پر بند کرے۔ دوسری جانب واشنگٹن حکومت نے ترکی کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ایسی کارروائیوں سے باز رہے، جن سے ترک اور شام میں موجود امریکی فورسز کے درمیان کسی ممکنہ ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔
تصویر: Reuters/Presidential Palace/K. Ozer
6 تصاویر1 | 6
ہفتہ 29 دسمبر کو ترک اور روسی اعلیٰ سطحی حکومتی اہلکاروں کے درمیان ماسکو میں ملاقات ہوئی تھی جس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ شام میں کارروائیوں کے حوالے سے ان دونوں ممالک کے درمیان قریبی رابطہ کاری رکھی جائے گی۔