شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی، حتمی تاریخیں طے
16 نومبر 2013البانیہ کے انکار کے بعد نوبل امن انعام یافتہ او پی سی ڈبلیو نے شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کے لیے کسی میزبان ملک کے نام کا اعلان نہیں کیا۔
امریکا نے البانیہ سے درخواست کی تھی کہ وہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو اپنے ہاں تلف کرنے کی اجازت دے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شام اپنے ہاں ان ہتھیاروں کی تلفی نہیں چاہتا۔ البانیہ نے جمعے کو امریکا کی درخواست ردّ کر دی تھی۔
اس کےبعد کیمیائی ہتھیاروں پر قابو پانے کے لیے مقرر عالمی ادارے او پی سی ڈبلیو نے جمعے کو رات گئے شام کے تیرہ سو ٹن کیمیائی ہتھیاروں کو مرحلہ وار تباہ کرنے کے منصوبے کے لیے حتمی تاریخیں مقرر کی ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اتحادی ملک امریکا کو البانیہ کے انکار کے بعد ان تاریخوں پر پورا اترنا مشکل ہو سکتا ہے۔ البانیہ کے وزیر اعظم ایدی راما نے جمعے کو اپنی قوم سے نشریاتی خطاب میں کہا: ’’البانیہ کے لیے اس آپریشن میں شریک ہونا ناممکن ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے پاس اس منصوبے کا حصہ بننے کی گنجائش نہیں ہے۔ اس سے پہلے البانیہ میں اس منصوبے کے خلاف عوام کا احتجاج جاری تھا۔
اُدھر واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے البانیہ کے فیصلے کو معمولی بات قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ متعدد دیگر ملک شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی تباہی کے لیے میزبان کا کردار ادا کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
روئٹرز کے مطابق ساکی نے اس حوالے سے کسی ملک کا نام نہیں بتایا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ البانیہ کے انکار کے باوجود ہتھیار وقت پر تباہ کر لیے جائیں گے۔
فوری طور پر اس بات کا اشارہ نہیں ملا کہ روس اور امریکا ہزاروں ٹن زہریلا فضلہ کہاں ٹھکانے لگائیں گے۔ شام کے دارالحکومت دمشق کے نواح میں 21 اگست کو ایک کیمیائی حملہ ہوا تھا جس میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ امریکا نے اس حملے کے لیے شام کے صدر بشار الاسد کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا تاہم دمشق حکومت نے باغیوں کو الزام دیا تھا۔
ان حالات میں امریکا نے شام میں عسکری مداخلت کی دھمکی دی تھی جس کے بعد بشار الاسد اپنے تمام کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی پر تیار ہو گئے تھے۔ اس حوالے سے روس اور امریکا کے درمیان ایک سمجھوتہ طے پا چکا ہے۔