شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے تلف کرنے کی ڈیل اور مغربی سفارتکاری
16 ستمبر 2013![](https://static.dw.com/image/17091242_800.webp)
آج فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں تین اہم مغربی طاقتوں امریکا، فرانس اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ ایک اجلاس میں شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں یہ اتفاقِ رائے ہوا کہ اگر شامی صدر بشار الاسد جنیوا ڈیل کے حوالے سے طے پانے والی اقوام متحدہ کی قرارداد پر پوری طرح عمل نہیں کرتے تو انہیں سخت نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ جان کیری کا کہنا تھا کہ اسد حکومت کو مکمل طور پر اُن بنیادی اصولوں کو تسلیم کرنا ہو گا، جن پر سب میں اتفاق ہوا ہے، اس کے علاوہ کچھ بھی ہوا تو وہ اُن کے لیے ناقابلِ قبول ہو گا۔ اسد حکومت اگر اِن پر عمل نہیں کرے گی تو اسے اِس کے نتائج بھگنتا ہوں گے اور اس پراُن کے اور روس کے درمیان اتفاق ہے۔
جان کیری کا مزید کہنا تھا کہ اسد حکومت کو طے شدہ ڈیل سے ادھر اُدھر نہیں ہونے دیا جائے گا۔ برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ لاراں فابیوس نے میٹنگ کے بعد کہا کہ اب اہم بات یہ ہے کہ اس سمجھوتے کو جلد از جلد عملی شکل دی جائے اور اُن کیمیائی ہتھیاروں کے ایسے خطرے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے جو اسد حکومت اپنے شہریوں اور اپنے ہمسایہ ممالک کے خلاف بھی استعمال کر رہی ہے۔
اُدھر روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے برطانیہ، فرانس اور امریکا کو متنبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ میں شام کے بارے میں سخت قرارداد پیش کرنے سے امن کوششوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔ لاوروف نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ امریکا شام کے حوالے سے روس کے ساتھ طے شدہ فریم ورک کا پابند رہتے ہوئے مذاکراتی پارٹنر بنا رہے گا۔ روسی وزیرخارجہ نے کہا کہ جنیوا ٹو کانفرنس کو طلب کرنا شام میں امن قائم کرنے کے کا ایک دوسرا راستہ ہے۔ لاوروف نے اسد حکومت کے مخالفین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ امن بحال کرنے کے لیے دمشق حکومت سے مذاکرات کی راہ اپنائیں۔
شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ الزامات کی تحقیقات کرنے والے اقوام متحدہ کے جنگی جرائم کے کمیشن کے چیرمین Paulo Pinheiro کا کہنا ہے کہ انہیں کُل چودہ الزامات کی چھان بین کرنا تھی۔ شام کے اندر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال اور متاثرہ مقام کا دورہ کرنے والی معائنہ کاروں کی ٹیم کے سربراہ Ake Sellstrom نے اپنی رپورٹ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو پیش کر دی ہے۔ اب بان کی مون سکیورٹی کونسل کے ایک بند کمرے میں ہونے والے اجلاس میں اس رپورٹ کے مندرجات سے رکن ممالک کو آگاہ کریں گے۔ ایسی توقع بھی ہے کہ وہ آج ہی جنرل اسمبلی میں یہ رپورٹ پیش کر سکتے ہیں۔
شام کے بارے میں اقوام متحدہ کے کمیشن کے سربراہ نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ شام کے بارے میں اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کی رکن کارلا ڈیل پونٹے کو ذاتی حیثیت میں شام کا دورہ کرنے کی دعوت دی گئی ہے لیکن تحقیقاتی کمیشن نے انہیں سرکاری طور پر ایسا دورہ کرنے کی تلقین کی ہے۔
دوسری جانب یہ بھی سامنے آیا ہے کہ شام میں جاری مسلح تنازعے کی وجہ سے ہیلتھ سیکٹر انہدام کے قریب پہنچ گیا ہے۔ پچاس سے زائد بین الاقوامی شہرت کی حامل معالجین اور پیشہ ور سائنسدانوں کے دستخطوں سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ شام میں جنگ کے بعد صحت عامہ کی صورت حال ابتر ہو چکی ہے اور مزید کچھ ہفتوں کے بعد شعبہ صحت کا ڈھانچہ گر سکتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پندرہ ہزار ڈاکٹر شام سے راہِ فرار اختیار کر چکے ہیں۔ شام بھر میں 37 فیصد ہسپتال تباہ ہو گئے ہیں جب کہ 20 فیصد ہسپتالوں کی عمارتیں شیلنگ سے تباہ حال ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق شام کے سب سے بڑے شہر حلب میں پانچ ہزار ڈاکٹروں کی جگہ صرف چھتیس موجود ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ بے ہوش کرنے والی ادویات کے بغیر زخمیوں کا آپریشن کیا جا رہا ہے اور عورتیں بغیر کسی طبی مدد کے بچے پیدا کرنے پر مجبور ہیں۔