شاندار اجلاس: تلخ موضوعات پر بحث
5 ستمبر 2013پوٹن نے پورے شہر کو سکیورٹی کے سخت ترین اقدامات کے ساتھ اس بار کے جی ٹونٹی سربراہ اجلاس کے لیے تیار کروایا ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی کی دہلیز پر کھڑی دنیا کی چوٹی کی 20 اقتصادی قوتوں کے اس اجلاس میں اس بار شام کے تنازعے کے موضوع کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
جی ٹونٹی سربراہ اجلاس کا انعقاد سینٹ پیٹرزبرگ کے شاندار کونسٹانٹین پیلس میں ہو رہا ہے، جہاں دنیا کے صنعتی اور تیزی سے ترقی کی طرف گامزن بیس ممالک کے قائدین اس بار تجارتی اور اقتصادی موضوعات کے ساتھ ساتھ شام کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔
شام کا موضوع جی ٹونٹی سمٹ پر چھایا ہوا
2006 ء میں جب روس کے اسی شہر ’سینٹ پیٹرزبرگ‘ میں آٹھ صنعتی طاقتوں کے گروپ G8 کا اجلاس منعقد ہوا تھا، اُس وقت مشرق وسطیٰ کا دیرینہ تنازعہ مزید شدت اختیار کر گیا تھا۔ اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین جھڑپوں کے ساتھ لبنان کی دوسری جنگ شروع ہو گئی تھی ۔ G8 ممالک کے لیڈروں نے اس تنازعے کے بارے میں اپنے اپنے موقف کا اعادہ کیا تھا تاہم اجلاس کے آخر میں نہ تو کوئی ٹھوس بیان سامنے آیا، نہ ہی جنگ پر کوئی اثرات مرتب ہوئے۔ اس بار شام کا تنازعہ موضوع بحث رہے گا۔ تاہم روسی صدر اور اس بار کی جی ٹونٹی سمٹ کے میزبان ولادیمیر پوٹن اس بات کی پوری کوشش کریں گے کہ شام کا تنازعہ اجلاس کا مرکزی موضوع نہ بنے کیونکہ جی ٹونٹی میں شامل ممالک کا شام کے مسئلے کے حل پر متفق ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ روس، چین، امریکا، برطانیہ اور فرانس کی صورت میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پانچ ویٹو پاورز سینٹ پیٹرزبرگ میں جی 20 گروپ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گی۔ اس کے علاوہ شام کے دو پڑوسی مسلم ممالک سعودی عرب اور ترکی، جو شام پر فوجی حملے کی حمایت کر رہے ہیں، بھی اس اجلاس میں موجود ہوں گے۔ سب سے بڑھ کر امریکی صدر باراک اوباما اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مابین نہایت سرد اور خاصی حد تک کشیدہ تعلقات بھی جی 20 اجلاس پر اثر انداز ہوں گے۔ اوباما پوٹن سے سنوڈن کے معاملے میں سخت ناراض ہیں اور دونوں لیڈروں کے مابین تعلقات کی کشیدگی حال ہی میں شمالی آئر لینڈ میں ہونے والے جی 8 اجلاس کے موقع پر بھی عیاں تھی۔
سُپر پاورز کے مابین کشیدہ تعلقات
دراصل آج سے شروع ہونے والے دو روزہ جی 20 اجلاس سے قبل امریکی صدر باراک اوباما کا ماسکو کا دورہ طے تھا۔ وائٹ ہاؤس کی طرف سے تاہم اسے منسوخ کر دیا گیا۔ اس کی بجائے اوباما گزشتہ روز یعنی چار ستمبر کو اسٹاک ہولم پہنچے، جہاں انہوں نے یورپ کی چند شمالی ریاستوں کے قائدین سے ملاقات کی۔ تا حال اس بارے میں نہ تو وائٹ ہاؤس اور نہ ہی کریملن کی طرف سے ایسا کوئی اشارہ مل رہا ہے، جس کی روشنی میں یہ کہا جا سکے کہ اوباما اور پوٹن جی 20 اجلاس کے موقع پر دوطرفہ مذاکرات بھی کریں گے۔ گزشتہ چند روز کے دوران شام کے موضوع پر ولادیمیر پوٹن نے اوباما پر کڑی تنقید اور سخت بیان بازی جاری رکھی تاہم گزشتہ روز اس بارے میں انہوں نے ایک انٹرویو میں اپنا موقف کُھل کر بیان کیا۔ پوٹن نے کہا ہے کہ اگر امریکی صدر اس بات کا ٹھوس ثبوت پیش کر دیں کہ بشارالاسد حکومت نے اپنے عوام کے خلاف زہریلی گیس کا استعمال کیا ہے تو وہ اس موضوع پر نظر ثانی کریں گے اور اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کی مدد سے شام پر فوجی حملے کی حمایت کر دیں گے۔ پوٹن نے یہ بیان خبر رساں ایجنسی اے پی اور روسی نشریاتی چینل ’ون‘ کے ساتھ بات چیت میں دیا تھا۔
توازن میں تبدیلی
چاہے شام کا موضوع کتنا ہی غالب کیوں نہ ہو، جی ٹونٹی سمٹ میں بہر حال عالمی اقتصادی صورتحال پر بھی بات چیت کی جائے گی، جو کسی طور بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔ اجلاس کے اختتامی اعلامیے میں اس بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور شامل ہو گا۔ ایک سال قبل جنوبی میکسیکو کے علاقے لوس کابوس میں ہونے والے اجلاس میں یورو کا بحران مرکزی موضوع تھا۔ عالمی سطح پر اس وقت توازن میں تبدیلی نظر آ رہی ہے۔ امریکی معیشت میں بہتری آئی ہے اور یورو زون نے بھی عالمی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کو مثبت رجحان کا عندیہ دیا ہے۔ تاہم یہ سب امریکا کے مرکزی بینک، فیڈرل ریزرو کی طرف سے ترقی کی دہلیز پر کھڑے ممالک کے لیے کم قیمت مالی وسائل کی فراہمی کے خاتمے کے اعلان کے بعد ہوا ہے۔ اس کے بعد ان ممالک کی کرنسیوں کی قدر بھی بُری طرح گر رہی ہے۔ اس کی وجہ ان ممالک کے خود ساختہ مسائل بھی بنے ہیں۔
مظاہرین بغیر کسی موقع کے
جی 20 اجلاس میں ریاستی اور حکومتی سربراہان کے لیے موضوعات تو ان گنت ہیں تاہم اجلاس کا ایجنڈا ان تمام موضوعات پر تسلی بخش بحث کے لیے وقت اور مواقع بمشکل دے گا۔ اس بار اقتصادی نمو اور روزگار کے مواقع سے متعلق ایک ایکشن پلان منظور ہونا ہے۔ آج جمعرات کو عشائیہ کے دوران زیادہ تر گفتگو ترقیاتی موضوعات کے بارے میں ہو گی۔ اس موقع پر مظاہرین جی ٹونٹی گروپ میں شامل ممالک کی اُن پالیسیوں کے خلاف احتجاج کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، جن کی مدد سے یہ ممالک اپنی معیشت کی حفاظت کے لیے وہ خصوصی تامینی اقدامات کرتے ہیں، جنہیں ’پروٹیکشن ازم‘ کہا جاتا ہے۔
جی ٹونٹی کے اجلاس میں تاہم سب سے زیادہ تحفظ اجلاس کے شرکاء کو دیا جا رہا ہے، جس کے لیے صدر پوٹن نے 4000 اضافی پولیس اہلکار تعینات کیے ہیں۔ قصر کونسٹانٹین تک کا زمینی راستہ مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے، بین الاقوامی ایئر پورٹ بند ہے اور بحری راستوں کی حفاظت کے لیے آبدوزیں تعینات کر دی گئی ہیں۔ اجلاس کے مقام تک پہنچنے کے لیے زیر آب نیٹ ورکس تیار کیے گئے ہیں تاکہ کسی قسم کا کوئی نا خوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔
بوہمے ہنرک/ کشور مصطفیٰ/ امجدعلی