1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’شان تاثیر کو مذہبی انتہا پسندوں کی جانب سے قتل کی دھمکی‘

بینش جاوید
3 جنوری 2017

پاکستانی صوبہ پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے شان تاثیر کا کہنا ہے کہ کرسمس کے موقع پر ان کی جانب سے پاکستانی مسیحیوں کے لیے ایک ویڈیو پیغام جاری کرنے پر انہیں اب قتل کی دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔

Screenshot Twitter Shaan Taseer
شان تاثیر کے فیس بک پیج پر کرسمس کے موقع پر جاری کردہ ویڈیو پیغام میں وہ مسیحی برادری کو کرسمس کی مبار ک باد دیتے نظر آتے ہیںتصویر: twitter.com/ShaanTaseer

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق اس ویڈیو پیغام میں شان تاثیر ان مسیحی افراد کے لیے دعا مانگ رہے ہیں، جو پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کے تحت ملزم قرار دیے گئے ہیں۔ روئٹرز کے مطابق یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ حکومت کی جانب سے مذہبی شدت پسندی پر قابو پانے کی کوششوں کے باوجود پاکستان میں اسلام کے نام پر انتہا پسندوں کرنے والوں کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔

رپورٹوں کے مطابق انتہا پسندوں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اگر پولیس نے شان تاثیر کے خلاف توہین مذہب کا الزام میں مقدمہ درج نہ کیا تو وہ سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ شان تاثیر کے والد سلمان تاثیر کو، جو پاکستانی صوبہ پنجاب کے گورنر تھے، انہی کے ایک گارڈ نے توہین مذہب کے قانون پر تنقید کے باعث فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔

شان تاثیر کے فیس بک پیج پر کرسمس کے موقع پر جاری کردہ ویڈیو پیغام میں وہ مسیحی برادری کو کرسمس کی مبار ک باد دیتے نظر آتے ہیں۔ اس ویڈیو میں انہوں نے ان افراد کے لیے دعا بھی کی جو توہین مذہب سے متعلق الزامات کے باعث جیلوں میں ہیں۔

رپورٹوں کے مطابق انتہا پسندوں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اگر پولیس نے شان تاثیر کے خلاف توہین مذہب کا الزام میں مقدمہ درج نہ کیا تو وہ سڑکوں پر نکل آئیں گےتصویر: twitter.com/ShaanTaseer

روئٹرز کے مطابق شان تاثیر کا کہنا ہے کہ انہیں ایسے انتہا پسندوں کی جانب سے قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں، جو ان کے والد کے قاتل اور بعد میں سزائے موت پانے والے ممتاز قادری سے عقیدت رکھتے ہیں۔ شان تاثیر نے کہا، ’’وہ مجھے ممتاز قادری کی تصاویر اس پیغام کے ساتھ بھیج رہے ہیں کہ کئی ممتاز قادری میرے انتظار میں ہیں۔‘‘

گزشتہ برس مارچ میں کئی ہزار افراد نے ممتاز قادری کے جنازے میں شرکت کی تھی کیوں کہ وہ قادری کو سلمان تاثیر کا قاتل ہونے کی وجہ سے ایک ہیرو سمجھتے تھے۔

پاکستان میں سن 2015 میں دو سو سے زائد افراد کے خلاف توہین مذہب کے مقدمات درج کیے گئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستانی مذہبی اقلیتوں سے تھا۔ اس قانون کے ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس قانون کو ذاتی دشمنیاں نمٹانے کے لیے غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ 

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں