پاکستانی فوجی سربراہ قمر جاوید باجوہ تین روزہ دورے پر اتوار کو چین پہنچ گئے ہیں۔ اس سے قبل ایک پاکستانی وزیرکی جانب سے شاہ راہ ریشم پروجیکٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا تھا۔
اشتہار
پاکستانی فوجی سربراہ قمر جاوید باجوہ پاکستان میں گزشتہ ماہ نئی حکومت کے قیام کے بعد بیجنگ کا دورہ کرنے والے اعلیٰ ترین عہدے دار ہیں۔ باجوہ کے دورے سے ایک ہفتہ قبل چینی وزیر خارجہ پاکستان گئے تھے۔ حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات میں نہایت گہرائی پیدا ہوئی ہے، جس پر امریکا کو ’تحفظات‘ ہیں۔
اس دورے میں باجوہ کی کوشش ہو گی کہ وزیر معیشت عبدالرزاق داؤد کے بیان کے بعد چین میں پیدا ہونے والے ممکنہ خدشات کا ازالہ کیا جا سکے۔ پاکستانی وزیراقتصادیات نے چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کے پروجیکٹس کو ایک برس کے لیے معطل کرنے کی تجویز دی تھی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستانی فوجی سربراہ قمر باجوہ، ملک میں فوج کے اثرورسوخ کے تناظر میں اعلیٰ غیرملکی رہنماؤں سے ملاقاتیں کرتے نظر آتے ہیں، جب کہ ملکی خارجہ پالیسی پر بھی پاکستانی فوج کا بھرپور کنٹرول ہے۔
اتوار کے روز اس دورے کے آغاز پر پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا، ’’اپنے اس دورے کے دوران چیف آف آرمی اسٹاف متعدد چینی رہنماؤں بہ شمول اپنے ہم منصب سے ملیں گے۔‘‘
پاکستانی سیاست دانوں کی ’سیاسی دوستیاں‘
عالمی یومِ دوستی کے موقع پر ڈی ڈبلیو اردو نے موجودہ پاکستانی سیاست دانوں کی آپسی اور غیر ملکی سیاست دانوں سے ’سیاسی دوستیوں‘ پر نظر ڈالی۔ دیکھیے ان سیاسی دوستیوں کی چند تصویری جھلکیاں اس پکچر گیلری میں
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
نواز شریف اور نریندر مودی کی دوستی: فائدہ کم، نقصان زیادہ
اکثر لوگوں کو دشمنی مہنگی پڑتی ہے لیکن پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کو شاید بھارتی وزیراعظم کی دوستی بھاری پڑی۔ نواز شریف کی نریندر مودی سے پہلی ملاقات ان کی حلف برداری کی تقریب میں 2014ء میں ہوئی۔ اس کے بعد 2015ء میں پیرس میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں مودی نے نواز شریف کو روک کر مصافحہ کیا۔ چند روز بعد بھارتی وزیراعظم نے افغانستان کے لیے اڑان بھری لیکن پھر اچانک لاہور پہنچ گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
زرداری اور نواز شریف: مفاہمت بھری دوستی
پاکستان میں مفاہمت کی سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں قائد حزب اختلاف نواز شریف کو خود سے دور کم اور قریب زیادہ رکھا۔ دونوں کے مابین اسی ’سیاسی دوستی‘ کی وجہ سے ملک میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت نے پانچ سال مکمل کیے۔
تصویر: AP
شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن
الیکشن 2018ء میں دھاندلی کے مبینہ الزامات کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان قربتیں بھی بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی جیت کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس کے دوران ان دونوں سیاستدانوں کی دوستی کتنی مستحکم ہوئی، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Mughal
عمران خان کی نریندر مودی سے ملاقات
عمران خان نے ماضی میں نریندر مودی اور نوازشریف کی ملاقاتوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا لیکن جب خود انہیں بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کا موقع ملا تو وہ ٹال نہ سکے۔ رپورٹوں کے مطابق انہوں نے نریندر مودی کو پاکستان آنے کی دعوت بھی دی تھی۔ وزیراعظم مودی کی جانب سے عمران خان کو انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد بھی موصول ہوچکی ہے۔ اب دیکھیے ان دونوں کی ’دوستی‘ کیا رخ اختیار کرتی ہے؟
تصویر: MEA India
مشرف اور واجپائی: ایک تاریخ ساز مصافحہ
سن 2002 میں نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں منعقدہ سارک سربراہ کانفرنس کے دوران اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے درمیان مصافحے کو ’تاریخ ساز مصافحہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ برِ صغیر کے چند ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے ان رہنماؤں کے مابین مذاکرات کوئی حتمی صورت اختیار کر لیتے تو شاید کشمیر پر تنازعہ کسی حل کی جانب بڑھ رہا ہوتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Macdougall
’پاک چین دوستی زندہ باد‘
1951ء میں پاک چین سفارتی تعلقات کی بنیاد رکھی گئی، جس کے بعد پاکستان میں چین کی دوستی کی بات ہر پاکستانی سیاستدان کرتا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبےمیں چین کی جانب سے پاکستان میں کی گئی سرمایہ کاری نے دونوں ممالک کے تعلقات مزید مستحکم کیے ہیں۔ پاکستان کےآئندہ ممکنہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں چین کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان کی غیرمستحکم معیشت کو سنبھالنے میں چین کے کردارکو سراہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Bradshaw
6 تصاویر1 | 6
واضح رہے کہ چین پاکستان میں انفراسٹرکچر کے متعدد پروجیکٹس میں قریب ساٹھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، تاہم فنانشل ٹائمز کے ساتھ بات چیت میں پاکستانی وزیر معیشت داؤد نے کہا کہ سابقہ حکومت کے دور میں چین کے ساتھ متعدد معاہدوں میں پاکستانی مفادات کا خیال نہیں رکھا گیا، اس لیے ان معاہدے کو ازسرنو دیکھا جانا چاہیے۔ یہ تنقیدی بیان اس وقت شائع ہوا تھا، جب چینی وزیرخارجہ وانگ ژی پاکستان کے دورے میں دونوں ممالک کے درمیان باہمی مفادات کے تحفظ کے عزم کے ساتھ وطن واپس پہنچے تھے۔