شاہ محمود قریشی بھارتی وزیر خارجہ سے ملاقات کریں گے
20 ستمبر 2018
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے حاشیے میں پاکستانی و بھارتی وزرائے خارجہ ملاقات کریں گے۔ یہ ملاقات رواں مہینے کے آخری ہفتے کے دوران ہو گی۔
اشتہار
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ رواں مہینے کے آخر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے موقع پر بھارتی وزیر خارجہ سُشما سوراج اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی سے ملاقات کریں گی۔ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کو پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے بھارتی وزیراعظم کو لکھے گئے خط میں تجویز کیا تھا۔
یہ اہم ہے کہ کئی برسوں بعد دونوں ملکوں کے اعلیٰ ترین سفارتکار ملاقات کریں گے۔ بظاہر اس پیشرفت کو سفارتی اور دونوں ملکوں کے سیاسی حلقے مثبت پیش رفت قرار دے رہے ہیں لیکن اس ملاقات میں کسی بریک تھرو کا کوئی امکان نہیں ہے۔
پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے چودہ ستمبر کو بھارتی وزیراعظم کے نام خط تحریر کیا تھا۔ یہ خط نریندر مودی کی جانب سے عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد مبارک باد کے پیغام کے جواب میں لکھا گیا۔ عمران خان نے اپنے خط میں تعمیری مذاکرات کو دونوں ملکوں کے لیے اہم قرار دیا۔
اسی خط میں عمران خان نے سارک ملکوں کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ سے قبل نیویارک میں جنرل اسمبلی میں شریک دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ کی تجویز پیش کی تھی۔ پاکستانی وزیراعظم نے اپنے خط میں تمام متنازعہ معاملات بشمول تنازعہٴ کشمیر کو حل کرنے کو وقت کی ضرورت بھی قرار دیا۔ انہوں نے سیاچن اور سر کریک کے حل طلب معاملات پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی جانب اشارہ کیا۔
یہ امر اہم ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے الیکشن جیتنے کے بعد اپنی تقریر میں واضح کیا تھا کہ اگر بھارت پاکستان کی جانب ایک قدم بڑھائے گا تو اُن کی حکومت دو قدم آگے بڑھے گی۔ اس تناظر میں پاکستانی وزارت خارجہ نے بھی دونوں ملکوں کے درمیان مذاکراتی عمل کی بحالی کو موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل کیا ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ وزیراعظم نے بھارتی وزیراعظم مودی کے مثبت جذبات کے جواب میں ویسے ہی مثبت جذبات کا اظہار کرتے ہوئے تمام حل طلب معاملوں پر بات چیت شروع کرنے کی پیشکش کی ہے۔ ڈاکٹر فیصل کے مطابق اسلام آباد اس وقت نئی دہلی کے جواب کا منتظر ہے۔
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔