’شبِ یکجہتی‘: برلن میں پہلی مرتبہ بے گھر افراد کی مردم شماری
30 جنوری 2020
جرمن دارالحکومت کی شہری انتظامیہ نے پہلی مرتبہ بے خانماں افراد کی مردم شماری شروع کر دی ہے۔ ’شبِ یکجہتی‘ کے نام سے اس پیش رفت کا مقصد عملاﹰ یہ ثابت کرنا ہے کہ برلن ’شہر اپنے بےگھر باسیوں کو بھی اپنا حصہ سمجھتا ہے‘۔
اشتہار
برلن صرف وفاقی جمہوریہ جرمنی کا دارالحکومت ہی نہیں بلکہ ایک شہری ریاست کے طور پر ایک وفاقی صوبہ بھی ہے۔ برلن کی صوبائی حکومت اس منصوبے کے ذریعے یہ جاننا چاہتی ہے کہ شہر میں بےگھر افراد کی مجموعی آبادی کتنی ہے، تاکہ ایسے باسیوں کی فلاح و بہبود کے لیے مزید مؤثر اقدامات کیے جا سکیں۔
لیکن ساتھ ہی 'شبِ یکجہتی‘ کے نام سے اس پیش رفت کے دو دیگر مقاصد بھی ہیں: ایک یہ کہ بےگھر افراد کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں رہائشی سہولیات مہیا کی جا سکیں اور دوسرے یہ کہ عملی طور پر یہ بھی ثابت کیا جا سکے کہ یہ شہر ان باسیوں کو بھی اپنا حصہ سمجھتا ہے، جن کا کوئی گھر نہیں ہے۔
دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا تیسرا منصوبہ
برلن دنیا بھر میں یہ کام کرنے والا صرف تیسرا شہر ہے۔ جرمن صدر مقام سے قبل امریکا میں نیو یارک اور فرانس میں پیرس کی شہری حکومتیں بھی یہ کوششیں کر چکی ہیں کہ انہیں علم ہونا چاہیے کہ وہاں ایسے افراد کی درست تعداد کتنی ہے، جن کے سروں پر کوئی چھت نہیں ہوتی۔
شہری ریاست برلن میں ایسا کیے جانے کا کئی سماجی فلاحی اداروں کی طرف سے کافی عرصے سے مطالبہ کیا جا رہا تھا۔
اس منصوبے پر عمل بدھ انتیس جنوری کی رات کیا گیا، جس دوران تین گھنٹے تک شہر کے سبھی حصوں میں ہزاروں رضاکاروں نے اس عمل میں حصہ لیا۔ حتمی نتائج کچھ ہی عرصے میں سامنے آ جائیں گے۔
ان رضاکاروں کی تعداد تین ہزار سات سو سے زیادہ تھی اور انہیں تین سے لے کر پانچ افراد تک کی سینکروں ٹیموں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ان ٹیموں کو بےگھر افراد کی مردم شماری کا کام مجموعی طور پر 617 ایسے پہلے سے مختص کردہ شہری علاقوں میں کرنا تھا، جن میں سے کوئی بھی بہت وسیع نہیں تھا۔
مردم شماری میں پوچھے جانے والے سوالات
اس 'مردم شماری‘ کے دوران رضاکاروں کا کام یہ تھا کہ وہ ایسے لوگوں کی تعداد گنیں، جو سڑکوں، فٹ پاتھوں یا عوامی مقامات پر رہتے یا شب بسری کرتے ہیں۔
بے گھر افراد کا گاؤں
اسکاٹ لینڈ میں بے گھر افراد کی مدد کرنے کے لیے نئے طریقے آزمائے جا رہے ہیں۔ ان میں ایک ’سوشل بائٹ ولیج‘ نامی منصوبہ بھی شامل ہے۔ اس میں لکڑی کے گھران افراد کے لیے بنائے گئے ہیں، جن کے پاس کوئی مستقل رہائش نہیں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
بالکل ایک تعطیلاتی گاؤں کی طرح
یہ ’سوشل بائٹ ولیج‘ ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے یہاں بے گھر افراد کی مدد کی جا رہی ہے۔ اس منصوبے میں تعاون فراہم کرنے والے کھانے پینے کی اشیاء پہلے ہی مہیا کر دیتے ہیں، جنہیں بعد میں یہاں رہنے والے بے گھر افراد میں بانٹ دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
چھوٹا اور صاف ستھرا
’سوشل بائٹ ولیج‘ کا مقصد صرف یہ نہیں کہ بے گھر افراد کوصرف کھانا پینا فراہم کیا جائے بلکہ ایک مقصد انہیں چھت مہیا کرنا بھی ہے۔ اس گاؤں میں بیس افراد رہ رہے ہیں۔ یہ گھر چھوٹے اور انتہائی پائیدار ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
تمام سہولیات میسر
ان چھوٹے گھروں میں ایک ہی کمرہ ڈرائنگ اور ڈائننگ روم ہے۔ اس میں ایک چھوٹا سے باورچی خانہ بھی ہے۔ اسی طرح دوسرے کمرے میں غسل خانہ ہے۔ یہ بہت پر تعیش تو نہیں مگر سڑکوں پر راتیں بسر کرنے سے بہت بہتر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
لکڑی کا استعمال
یہ تمام گھر لکڑی سے بنائے گئے ہیں۔ لکڑی کے ساتھ ساتھ پچیس سینٹی میٹر موٹائی والی انسولیشن بھی لگائی گئی ہے تاکہ سردی سے بچا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
گرم اور آرام دہ
ان گھروں میں خواب گاہ بہت زیادہ فاصلے پر نہیں ہے۔ اس کمرے کو کم جگہ استعمال کرتے انتہائی آرام دہ بنایا گیا ہے۔ بے گھر افراد طویل عرصے تک یہاں قیام نہیں کر سکتے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
سویٹ ہوم
بے گھر افراد کو رہنے میں جتنا بھی مزہ آ رہا ہو، اٹھارہ ماہ سے زیادہ یہاں کوئی قیام نہیں کر سکتا۔ اس دوران ’سوشل بائٹ ولیج‘ کے کارکن ان بے گھر افراد کی مدد کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی زندگی دوبارہ شروع کرنے کے قابل ہو سکیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
اپنی مدد آپ
’سوشل بائٹ ولیج‘ کے کارکن ان کو بھی تعاون فراہم کرتے ہیں، جو ماضی میں بے گھر افراد کے اس گاؤں کا حصہ رہ چکے ہوں۔ انہیں روزگار کی تلاش اور روز مرہ زندگی کے حوالے سے اہم معلومات مہیا کی جاتی ہیں۔ اس تصویر میں دکھائی دینے والے دونوں افراد ماضی میں بے گھر تھے اور اب ’سوشل بائٹ ولیج‘ منصوبے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
بے گھر ہونے کے خلاف جنگ
جوش لٹل جون بے گھر ہونے کی حالت کے خاتمے کے لیے جنگ کا اعلان کر چکے ہیں۔ وہ اس منصوبے کے شریک بانی بھی ہیں۔ شاید یہ منصوبہ اسکاٹ لینڈ کے دیگر حصوں کے لیے بھی ایک مثال بن جائے یا پھر دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اسی طرح کے منصوبے شروع کر دیے جائیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
8 تصاویر1 | 8
اس دوران ایسے افراد سے جو چند مختصر سوالات پوچھے گئے، وہ ان کی عمر، صنف اور شہریت کے علاوہ اس بارے میں تھے کہ وہ کب سے بے گھر ہیں۔
برلن کے میئر میشائل میولر کے مطابق اس عمل کا مقصد بے گھر افراد سے متعلق ایسی پالیسی تیار کرنا ہے، جو زمینی حقائق کے عین مطابق ہو اور جس کے ذریعے ایسے افراد کی زیادہ سے زیادہ عملی مدد بھی یقینی بنائی جا سکے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق برلن میں اس وقت 36 ہزار افراد ایسے ہیں، جو شہری حکومت کی طرف سے مہیا کردہ رہائش گاہوں اور شیلٹر ہاؤسز میں رہتے ہیں۔
ایسے افراد میں سے 84 فیصد مرد اور 16 فیصد خواتین ہیں اور ان میں سے نصف سے زائد کا تعلق کسی نہ کسی ایسے ملک سے ہے، جو یورپی یونین کا رکن نہیں ہے۔
بین نائٹ (م م / ا ا)
جرمن شہریوں کی غربت کی کہانیاں
بے گھر، کھانے پینے میں بچت اور بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی پیسے نہیں۔ اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو جرمنی میں ہر تیسرا شہری غربت سے متاثر ہے۔ ایسے افراد کی کہانیاں تصویروں کی زبانی۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
غیر یقینی مستقبل
یہ تصویر جرمن وفاقی ریاست اور شہر بریمن کے غریب ترین سمجھے جانے والے علاقے کی ہے۔ بریمن میں ہر پانچویں شخص کو غربت کے خطرات لاحق ہیں۔ جرمنی میں غریب اسے تصور کیا جاتا ہے جس کی ماہانہ آمدنی درمیانے درجے کے جرمن شہریوں کی اوسط آمدنی سے ساٹھ فیصد سے کم ہو۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بھوک کے خلاف جنگ
بریمن میں تین ایسی غیر سرکاری تنظیمیں بھی سرگرم ہیں جنہوں نے غربت اور بھوک کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے۔ یہ ادارے سپر مارکیٹوں اور بیکریوں سے بچا ہوا کھانا اور اشیائے ضرورت جمع کر کے ضرورت مند افراد میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایسی ایک تنظیم ہر روز قریب سوا سو افراد کو کھانا مہیا کرتی ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
نسلی تفریق سے بالاتر
جرمن شہر ایسن میں ایک نجی تنظیم نے غیر ملکی افراد کو مفت خوراک مہیا نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر شدید تنقید سامنے آنے کے بعد انہیں فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔ بریمن میں سرگرم تنظیموں کا تاہم کہنا ہے کہ وہ ہر رنگ اور نسل سے تعلق رکھنے والے غریب افراد کی مدد کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بوڑھے بھی پیش پیش
اسی سالہ ویرنر ڈوزے رضاکارانہ طور پر غریبوں کو خوراک مہیا کرنے والی تنظیم بریمنر ٹافل کے لیے کام کرتے ہیں۔ کئی افراد ایک یورو فی گھنٹہ اجرت کے عوض اور بہت سے رضاکار طالب علم بھی ’غربت کے خلاف جنگ‘ کا حصہ ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
ہالے میں اجڑے گھر
مشرقی جرمنی میں ہالے شہر کی رونقیں قابل دید تھیں لیکن اب ہالے نوئے اسٹڈ کا علاقہ ویرانی کا منظر پیش کرتا ہے۔ ہالے میں بے روزگاری کی شرح بھی زیادہ ہے اور روزگار ملنے کے امکانات بھی کم ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
محروم طبقے کی مدد
ہالے میں محروم ترین طبقے کی مدد کے لیے انہیں کم داموں پر اشیائے خورد و نوش اور کپڑے فراہم کیے جاتے ہیں۔ ان ’سوشل مارکیٹوں‘ میں محروم ترین طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں اور معمر افراد کو ترجیحی بنیادوں پر یہ اشیا فراہم کی جاتی ہیں لیکن غریب ترین جرمن شہر ہالے میں ضرورت مندوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’زیادہ تر خریدار غیر ملکی‘
یہ تصویر ایک ایسے اسٹور کی ہے جہاں گھر کی اشیا سستے داموں فراہم کی جاتی ہیں۔ اسٹور کے ملازم کا کہنا ہے کہ خریداروں کی اکثریت غیر ملکیوں اور مہاجرین کی ہوتی ہے۔ ان کے بقول غریب جرمن شہری شاید استعمال شدہ اشیا خریدنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
غربت میں پروان چڑھتے بچے
جرمنی میں قریب ایک ملین بچے غربت کا شکار ہیں۔ ایسے بچے نہ تو سالگرہ کی تقریبات منا پاتے ہیں، نہ کھیلوں کے کلبوں کا رخ کر سکتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں ہر ساتواں بچہ حکومت کی فراہم کردہ سماجی امداد کا محتاج ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’کوئی بچہ بھوکا نہ رہے‘
’شنٹے اوسٹ‘ نامی ایک تنظیم چھ سے پندرہ برس عمر کے پچاس بچوں کو اسکول کے بعد کھانا مہیا کرتی ہے۔ ادارے کی ڈائریکٹر بیٹینا شاپر کہتی ہیں کہ کئی بچے ایسے ہیں جنہیں ایک وقت کے لیے بھی گرم کھانا دستیاب نہیں ہوتا۔ اس تنظیم کی خواہش ہے کہ کوئی بچہ گھر بھوکا نہ جائے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’ہم ایک خاندان ہیں‘
بیٹینا شاپر کا کہنا ہے کہ ضرورت مند بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جن میں مہاجر بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ ان کی تنظیم بچوں کو کھانا مہیا کرنے کے علاوہ ہوم ورک اور روز مرہ کے کاموں میں بھی معاونت فراہم کرتی ہے۔ دانت صاف کرنے کا درست طریقہ بھی سکھایا جاتا ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بڑھتی تنہائی
ایک اندازے کے مطابق قریب چھ ہزار بے گھر افراد برلن کی سڑکوں پر سونے پر مجبور ہیں۔ جرمن دارالحکومت کے ساٹھ فیصد بے گھر افراد غیر ملکی ہیں اور ان کی اکثریت کا تعلق مشرقی یورپی ممالک سے ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بے گھروں کے چکنا چور خواب
ایک حادثے میں یورگ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی اور وہ گزشتہ چھ برس سے بے گھر ہے۔ یورگ کا کہنا ہے کہ برلن میں بے گھر افراد کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ ایسے افراد میں آپسی مقابلہ بھی بڑھ رہا ہے۔ تعمیر کے فن میں مہارت رکھنے والے اڑتیس سالہ یوگ کی خواہش ہے کہ کسی دن وہ دوبارہ ڈرم بجانے کے قابل ہو پائے۔