شدت پسندی جرمن ترقی کے لیے خطرہ ہے، مرکزی بینک کے سربراہ
23 مارچ 2024
جرمنی میں بڑھتی ہوئی دائیں بازو کی شدت پسندی، ملک کی ترقی و کامیابی کے لیے ایک خطرہ ہے۔ یہ بات جرمن مرکزی بینک کے سربراہ یوآخم ناگیل نے کہی ہے۔
اشتہار
جرمنی کے فُنکے میڈیا گروپ کے اخبارات سے بات کرتے ہوئے 57 سالہ ناگیل کا کہنا تھا، ''میں ہر ایک سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ دائیں بازو کی شدت پسندی کے خطرے کو ہلکا نہ لیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''دائیں بازو کی شدت پسندی سرمایہ کاروں اور باہر سے آنے والے ماہر ورکرز کو خوفزدہ کرتی ہے۔ اس سے ہماری ترقی اور کامیابی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔‘‘
یوآخم ناگیل جرمنی میں بہت سے دیگر افراد کی طرح انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی اور تارکین وطن مخالف جماعت آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ یا اے ایف ڈی کی حالیہ انتخابی کامیابیوں کے سلسلے پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے تھے۔
جرمنی میں سیاسی پناہ حاصل کرنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے سبب جرمن ووٹرز کی بے چینی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اے ایف ڈی کی طرف سے حاصل کی جانے والی حالیہ کامیابیاں معاشرے میں شدید بحث کا سبب بنی ہیں۔ حالیہ مہینوں کے دوران ملک بھر میں ہزارہا افراد شدت پسندی کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں شریک ہو چکے ہیں۔
جرمن مرکزی بینک کے سربراہ یوآخم ناگیل کے مطابق بطور شہری وہ بھی اس طرح کی پیشرفت پر بہت زیادہ تحفظات رکھتے ہیں: ''یہی وجہ ہے کہ میں جمہوریت کے لیے فرینکفرٹ میں ہونے والی ایک ریلی میں شرکت کی، اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ۔‘‘
بُنڈس بینک کے صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ملک کو درپیش بڑے چیلنجز کو کم کرنا نہیں چاہتے، ساتھ ہی انہوں نے کاروباری اداروں سے درخواست کی کہ وہ معاشی صورتحال کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار بھلے کریں، ''لیکن صورتحال کو اس سے زیادہ بدتر نہیں بنانا چاہیے جتنی وہ اصل میں ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ دوسری صورت میں کوئی بھی سرمایہ کاری کے لیے جرمنی کا رُخ نہیں کرے گا۔ ناگیل نے یہ بات زور دے کر کہی کہ جرمنی 'یورپ کا مرد بیمار‘ نہیں ہے۔
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔