’شدت پسند تنظیموں کے رکن افغان اور پاکستانی پناہ گزین‘
11 مارچ 2019
جرمن حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق پانچ ہزار سے زائد تارکین وطن پر شبہ ہے کہ وہ اپنے اپنے وطنوں میں ’جنگی جرائم‘ میں ملوث رہ چکے ہیں۔ بی اے ایم ایف کے سربراہ کے مطابق اکثر ایسے دعوے خود مہاجرین کرتے ہیں۔
اشتہار
حالیہ دنوں کے دوران جرمنی میں یہ بحث بھی زوروں پر ہے کہ پناہ کے متلاشی افراد میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو اپنے اپنے ممالک میں کالعدم تنظیموں سے وابستہ رہے ہیں اور کئی ایسے جرائم کے بھی مرتکب رہ چکے ہیں جنہیں ’جنگی جرائم‘ میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
اتوار دس مارچ کے روز جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت و ترک وطن (بی اے ایم ایف) کے صدر ہانس ایکہارڈ زومر نے مقامی اخبار ’ویلٹ ام زونٹاگ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ شدت پسند تنظیموں اور ’جنگی جرائم کے مرتکب‘ پناہ کے درخواست گزار دراصل خود ہی ایسے دعوے کرتے ہیں۔
اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے بی اے ایم ایف کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے کئی تارکین وطن اپنی پناہ کی درخواستوں میں خود ہی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اپنے آبائی وطنوں میں طالبان یا ان جیسی دیگر دہشت گرد تنظیموں سے منسلک رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان ممالک سے تعلق رکھنے والے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد عام طور پر ایسے دعوے جرمنی سے ملک بدری کے خطرے سے بچنے اور سیاسی پناہ کے حصول کے امکانات بڑھانے کے لیے کرتے ہیں۔
جرمن پارلیمان میں وفاقی وزارت داخلہ نے گزشتہ ہفتے ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ سن 2014 سے لے کر سن 2019 تک سیاسی پناہ کے پانچ ہزار سے زائد درخواست گزار ایسے تھے جن کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ اپنے آبائی وطنوں میں جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں اور ان معاملوں کی تفتیش کی جا رہی ہے۔
ہانس ایکہارڈ زومر کے مطابق ان پانچ ہزار افراد میں سے بڑی تعداد ایسے ہی تارکین وطن کی ہے جنہوں نے خود کالعدم تنظیموں سے وابستہ ہونے کے دعوے کیے تھے اور اسی لیے ان کے مقدمات تفتیشی اداروں کو سپرد کر دیے گئے تھے۔
انہوں نے بی اے ایم ایف کے ان فیصلوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ وفاقی ادارہ ایسے معاملات کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھتا ہے اور کیوں کہ بی اے ایم ایف خود کوئی تفتیشی ادارہ نہیں ہے اسی لیے یہ مقدمات تحقیقات کے لیے سکیورٹی اداروں کو بھیج دیے جاتے ہیں۔
ش ح / ا ب ا / خبر رساں ادارے
دنيا بھر ميں کہاں کہاں مہاجرين کے بحران جاری ہيں؟
اس وقت دنيا بھر ميں بے گھر اور ہجرت پر مجبور افراد کی تعداد تاريخ ميں اپنی اونچی ترين سطح پر ہے۔ اس تصويری گيلری ميں آپ جان سکتے ہيں کہ اس وقت کن کن ممالک کو مہاجرين کے بحرانوں کا سامنا ہے۔
رواں سال مئی کے اواخر ميں افريقی ملک برونڈی کے پناہ گزينوں کی تعداد 424,470 تھی۔ ان مہاجرين ميں سے تقريباً ستاون فيصد نے تنزانيہ ميں جبکہ بقيہ نے يوگينڈا، کانگو اور روانڈا ميں پناہ لے رکھی ہے۔ برونڈی ميں اقتصادی بد حالی، کھانے پينے کی اشياء کی قلت و بيمارياں وسيع پيمانے پر فرار کا سبب بن رہی ہيں۔ يو اين ايچ سی آر نے برونڈی کے مہاجرين کے ليے اس سال 391 ملين امريکی ڈالر کی امداد کی اپيل کر رکھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Kasamani
کانگو
مئی کے اختتام پر افريقہ ميں صحارا ريگستان کے نيچے واقع ممالک ميں پناہ ليے ہوئے کانگو کے مہاجرين کی مجموعی تعداد 735,000 تھی۔ کانگو کے مختلف علاقوں ميں مسلح تنازعات جاری ہيں اور اس ملک کو درپيش مہاجرين کے بحران کو انتہائی پيچيدہ تصور کيا جاتا ہے۔ سن 2017 سے اب تک اس ملک کے ملين افراد بے گھر ہو چکے ہيں اور اس کے علاوہ پڑوسی ملکوں کے بھی لگ بھگ پانچ لاکھ مہاجرين نے کانگو ميں پناہ لے رکھی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Akena
عراق
عراق ميں جاری مسلح تنازعے کے سبب سن 2014 سے اب تک اس ملک کے تين ملين شہری بے گھر ہو چکے ہيں۔ تازہ ترين اعداد و شمار کے مطابق 2.1 ملين عراقی شہری اس وقت بے گھر ہيں اور اپنے ملک کے اندر ہی پناہ گاہوں ميں گزر بسر کر رہے ہيں۔ 260,000 عراقی تارکين وطن پناہ کے ليے ديگر ممالک ہجرت بھی کر چکے ہيں۔
تصویر: Reuters/K. Al-Mousily
روہنگيا مہاجرين
پچيس اگست سن 2017 سے لے کر رواں سال مئی کے اواخر تک پناہ کے ليے بنگلہ ديش ہجرت کرنے والے روہنگيا مسلمانوں کی تعداد 713,000 ہے۔ روہنگيا مسلمان، ميانمار ميں ايک اقليتی گروپ ہيں جن کے پاس کسی ملک کی شہريت نہيں۔ اقوام متحدہ اپنی متعدد رپورٹوں ميں ميانمار کی فوج کے روہنگيا کے خلاف اقدامات کو ’نسل کشی‘ سے تعبير کر چکا ہے۔
تصویر: DW/ P. Vishwanathan
شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام ميں اس وقت 13.1 ملين افراد کو ہنگامی بنيادوں پر مدد درکار ہے۔ اس ملک ميں بے گھر افراد کی تعداد 6.6 ملين ہے جبکہ سن 2011 ميں خانہ جنگی کے آغاز سے اب تک ساڑھے پانچ ملين شامی باشندے پناہ کے ليے ديگر ممالک ہجرت کر چکے ہيں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
وسطی افريقی جمہوريہ
وسطی افريقی جمہوريہ دنيا کے غريب ترين ممالک ميں سے ايک ہے۔ اس وقت ديگر ملکوں ميں پناہ کے ليے موجود اس ملک کے پناہ گزينوں کی تعداد 582,000 ہے جبکہ اپنے ہی ملک ميں بے گھر افراد کی تعداد 687,398 ہے۔ وہاں غربت کے علاوہ متصادم مسلح گروہوں اور امن و امان کی ابتر صورتحال کے سبب مقامی لوگ ہجرت پر مجبور ہو رہے ہيں۔
تصویر: Imago/alimdi
يورپ
يورپ ميں سمندری راستوں سے اس سال اب تک 32,601 مہاجرين پہنچ چکے ہيں جبکہ بحيرہ روم کے راستے پناہ کے سفر ميں 649 ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں۔ يو اين ايچ سی آر کے مطابق 2017ء ميں172,301 مہاجرين، 2016ء ميں 362,753، سن 2015 ميں 1,015,078 اور سن 2014 ميں 216,054 مہاجرين يورپ پہنچے۔ ان مہاجرين کا تعلق مشرق وسطی، افريقہ، مشرقی يورپ اور ايشيا سے ہے۔
تصویر: imago/Anan Sesa
يمن
يمن ميں حوثی باغيوں کے خلاف سعودی قيادت ميں عسکری اتحاد کی کارروائی کے سبب اب تک 192,352 افراد پڑوسی ملکوں ميں پناہ لے چکے ہيں۔ مشرق وسطی کے غريب ملکوں ميں سے ايک يمن ميں غربت اور عدم استحکام کے علاوہ مسلح تنازعہ لوگوں کے فرار کا سبب بنا۔ اس وقت اس ملک ميں موجود بائيس ملين سے زائد افراد کو انسانی بنيادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔
تصویر: DW/A. Stahl
نائجيريا
اس افريقی ملک ميں دہشت گرد تنظيم بوکو حرام کی کارروائيوں کے نتيجے ميں دو لاکھ سے زائد شہری ہجرت کر چکے ہيں جبکہ ملک ميں ہی بے گھر ہو جانے والے افراد کی تعداد اس وقت 1.7 ملين بنتی ہے۔ نائجر، چاڈ اور کيمرون ميں بھی بوکو حرام کی وجہ سے لگ بھگ پانچ لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہيں۔
تصویر: imago/epd/A. Staeritz
جنوبی سوڈان
جنوبی سوڈان ميں سن 2013 سے جاری خونريز مسلح تنازعے کے سبب اس ملک کے 2.4 ملين شہری پناہ کے ليے ديگر ممالک ہجرت کر چکے ہيں۔ علاوہ ازيں ملک کے اندر بے گھر ہو جانے والے افراد کی تعداد بھی لاکھوں ميں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Forrest
پاکستان
افغانستان اور روس اور امريکا کی جنگ کے دور سے پاکستان ميں لاکھوں افغان پناہ گزين پناہ ليے ہوئے ہيں۔ يو اين ايچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان ميں رجسٹرڈ افغان مہاجرين کی تعداد قريب 1.4 ملين ہے۔ ان مہاجرين کی ديکھ بھال کے علاوہ انہيں اتنی طويل مدت تک کے ليے بنيادی سہوليات کی فراہمی محدود وسائل والے ملک پاکستان کے ليے ايک چيلنج ثابت ہوا ہے۔