1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آفاتعالمی

شدید موسمی حالات کے سبب لاکھوں بچے بے گھر ہو گئے، یونیسیف

6 اکتوبر 2023

اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سن 2016 اور 2021 کے درمیان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والی قدرتی آفات کے سبب سوا چار کروڑ سے بھی زیادہ بچے بے گھر ہو گئے۔

انڈونیشیا کے جاوا میں بچے خشک سالی سے متاثرہ کھیتوں میں
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1.3 ملین سے زیادہ بچے خشک سالی کی وجہ سے اپنے ملکوں میں بے گھر ہوئے جبکہ تقریباً آٹھ لاکھ دس ہزار بچے جنگل کی آگ کی وجہ سے بے گھر ہوئےتصویر: Dasril Roszandi/AA/picture alliance

اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق موسمیاتی بحران  کے سبب سیلاب، خشک سالی، طوفان اور جنگل میں لگنے والی آگ جیسے انتہائی شدید قسم کے موسمی واقعات کی وجہ سے سن  2016 اور 2021 کے درمیان 43 ملین سے بھی زیادہ بچے بے گھر ہو گئے۔

قدرتی آفات گوشت خوری کے سبب آتی ہیں، بھارتی پروفیسر

یونیسیف کی جانب سے جمعے کے روز جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی موجودہ شرح کی مناسبت سے اگلے 30 برسوں کے دوران صرف موسمی آفات سے 100 ملین سے بھی زیادہ بچے اور نوجوان بے گھر ہو سکتے ہیں۔

جنوبی ایشیا: تین چوتھائی بچوں کو شدید گرمی کے خطرات کا سامنا

یونیسیف میں مہاجرت کی ماہر اور اس رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک لورا ہیلی نے کہا، ''حقیقت تو یہ ہے کہ مستقبل میں بہت زیادہ بچے متاثر ہونے والے ہیں، کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات شدید تر ہوتے جا رہے ہیں۔''

پاکستانی صوبہ پنجاب میں آسمانی بجلی گرنے سے دس افراد ہلاک

عام طور پر موسمیاتی آفات کی وجہ سے داخلی نقل مکانی کی تعداد متاثرین کی عمر کے حساب سے نہیں کی جاتی ہے۔

جنگیں اور قدرتی آفات سرفہرست: مہاجرت اور اس کی وجوہات کے بارے میں جانیے

لیکن اقوام متحدہ میں بچوں کی فلاح و بہبود سے متعلق ایجنسی یونیسیف نے ایسے بے گھر ہونے والے بچوں کے اعداد و شمار کی چھان بین کرنے اور اسے اجاگر کرنے کے لیے ان غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کیا، جو اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کے لیے کام کرتی ہیں۔

قدرتی آفات سے ہونے والے نقصان کا اندازہ کیسے لگایا جاتا ہے؟

بیشتر سیلاب اور طوفان کی وجہ سے بے گھر ہوئے

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سن 2016 سے 2021 تک موسمیاتی آفات کی چار اقسام: سیلاب، طوفان، خشک سالی اور جنگل میں لگنے والی آگ 44 ممالک میں 43.1 ملین بچوں کے نقل مکانی کا سبب بنی۔

نقل مکانی کرنے والوں میں سے 95 فیصد یعنی (40.9 ملین) بچے سیلاب اور طوفان کی وجہ سے بے گھر ہوئے۔تصویر: ALI CAN ZERAY/DHA

رپورٹ کے مطابق گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ان آفات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ نقل مکانی کرنے والوں میں سے 95 فیصد یعنی (40.9 ملین) بچے سیلاب اور طوفان کی وجہ سے بے گھر ہوئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1.3 ملین سے زیادہ بچے خشک سالی کی وجہ سے اپنے ملکوں میں بے گھر ہوئے جبکہ تقریباً آٹھ لاکھ دس ہزار بچے جنگل کی آگ کی وجہ سے بے گھر ہوئے، اس میں خاص طور پر کینیڈا، اسرائیل اور امریکہ کے بچے شامل ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ چین اور فلپائن ان ممالک میں شامل ہیں، جہاں سب سے زیادہ بچے اندرونی طور پر بے گھر ہوئے۔

لیکن بچوں کی آبادی کے حجم کے لحاظ سے، ڈومینیکا اور وانواتو جیسے چھوٹے جزیروں کے ممالک میں رہنے والے بچے طوفان سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے، جبکہ صومالیہ اور جنوبی سوڈان کے بچے سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔

یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے ایک بیان میں کہا، ''یہ کسی بھی بچے کے لیے خوفناک بات ہوتی ہے کہ وہ جنگل کی آگ، طوفان یا سیلاب کے سبب اپنی کمیونٹی سے بے دخل ہو جاتا ہے۔

وہ مزید کہتی ہیں: ''خاص طور پر وہ لوگ جو بھاگنے پر مجبور ہوتے ہیں، ان کے لیے خوف اور اس کا اثر کافی تباہ کن ہو سکتا ہے، اس فکر کے ساتھ کہ آیا وہ گھر واپس آئیں گے، اسکول دوبارہ شروع ہو گا یا نہیں یا پھر سے نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑے گا۔ نقل مکانی سے ان کی جان تو بچ جاتی ہے، تاہم یہ زندگی میں بہت خلل ڈالتی ہے۔''

رسل نے بچوں کے لیے بڑھتے ہوئے ایسے چیلنجزسے نمٹنے میں ''بہت سست رو'' اقدامات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا ہے، ''جیسے جیسے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات بڑھتے جائیں گے، اسی طرح آب و ہوا سے وجود میں آنے والی قدرتی آفات بھی بڑھتی جائیں گی۔ اس بڑھتے ہوئے چیلنج کا جواب دینے کے لیے ہمارے پاس بچوں کے لیے آلات اور علم بھی ہے، لیکن ہم بہت سست

 روی سے کام کر رہے ہیں۔''ان کا مزید کہنا تھا، ''ہمیں اس کے لیے کمیونٹیز کو تیار کرنے اور تحفظ کے لیے کوششوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ بے گھر ہونے کے خطرے سے دوچار بچوں اور ان کی بھی مدد کریں جو پہلے ہی اجڑ چکے ہیں۔''

ص ز / ج ا (اے پی، اے ایف، ڈی پی اے)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں