شدید گرمی سے برصغیر میں کروڑوں افراد کی ہلاکت کا خطرہ
10 اکتوبر 2023ایک نئی تحقیق میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ رواں صدی کے اختتام تک ماحولیاتی تبدیلی گلوبل وارمنگ کا باعث بن سکتی ہے جو کہ بھارت اور پاکستان سمیت دنیا کے کچھ سب سے زیادہ آبادی والے علاقوں میں لوگوں کو دل کا دورہ پڑنے اور لو کے باعث موت کا سبب بن سکتی ہے۔
امریکہ کی پین یونیورسٹی کے پین اسٹیٹ کالج آف ہیلتھ اینڈ ہیومن ڈیولپمنٹ اور پرڈیو انسٹی ٹیوٹ فار سسٹین ایبل فیوچر نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ اگر کرہ ارض کی گرمی، ماقبل صنعتی سطح، کے مقابلے میں 1.5ڈگری سیلسیئس زیادہ ہوجاتی ہے تو یہ انسانی صحت کے لیے ہلاکت خیز ہو گی۔
جنوبی ایشیا: ماحولیاتی تبدیلیوں سے خواتین کی آمدن میں کمی، غربت میں اضافہ
انسانی جسم گرمی اور رطوبت کی ایک خاص سطح کو ہی برداشت کرسکتا ہے جس کے بعد صحت کے حوالے سے کئی طرح کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں، مثلاً لو لگنا اور دل کا دورہ پڑنا۔
دہلی اور ملتان کے لوگ متاثرین میں شامل
تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ اگر عالمی درجہ حرارت، ماقبل صنعتی سطح سے، 2ڈگری سیلسیس بڑھتا ہے تو پاکستان اور بھارت اور وادی سندھ کے 2.2ارب باشندے، مشرقی چین کے ایک ار ب لوگ اور سب صحارا افریقہ کے 800ملین افرادکو گھنٹوں تک سخت گرمی کا سامنا کرنا پڑے گا جو انسانی قوت برداشت سے باہر ہوگا۔
جو شہر اس سالانہ گرمی کا شکار ہوں گے ان میں دہلی، کولکاتہ، ملتان، نان جنگ اور ووہان شامل ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب بیماریوں میں بھی زبردست اضافہ
چو نکہ یہ علاقے کم اور درمیانہ آمدنی والے ممالک پرمشتمل ہیں اس لیے لوگوں کے پاس ایئر کنڈیشنز یا اپنے جسم کو ٹھنڈا رکھنے کے دیگر موثر طریقوں تک رسائی بہت مشکل ہوگی۔
غریب ممالک سب سے زیادہ متاثر
اگر کرہ ارض کی گلوبل وارمنگ ماقبل صنعتی سطح سے 3ڈگری سیلسئس سے اوپر جاتی ہے تو گرمی کی بڑھتی ہوئی سطح، فلوریڈا سے نیویارک تک اور ہیوسٹن سے شکاگو تک، مشرقی سمندری حدود اور امریکہ کے وسطی علاقوں کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔ تحقیقات میں پایا گیا کہ جنوبی امریکہ اور آسٹریلیا کو بھی شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
لیکن ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں ترقی یافتہ ممالک کے لوگ کم نقصان اٹھائیں گے۔ ترقی پذیر ملکوں میں سن رسیدہ اور بیمار افراد کی ہلاکتوں کی تعداد زیادہ ہوگی۔
تحقیقاتی مقالے کے شریک مصنف میتھیو ہیوبر، جو پرڈیویونیورسٹی میں ارتھ، ایٹماسفیئرک اینڈ پلانیٹری سائنس کے پروفیسر ہیں، کا کہنا ہے کہ "گرمی کا بدترین دباو ان خطوں میں ہوگا جودولت مند نہیں ہیں اور جہاں آنے والی دہائیوں میں آبادی میں تیزی سے اضافہ متوقع ہے۔"
انہوں نے مزید کہا، " یہ ایک حقیقت ہے کہ غریب قومیں امیر ملکوں کے مقابلے گرین ہاوس گیسوں کا اخراج بہت کم کرتی ہیں۔ تاہم اس کے باوجود اربوں غریب لوگ نقصان اٹھائیں گے اور بہت سے لوگ مرسکتے ہیں۔لیکن دولت مند قومیں بھی اس گرمی کا شکار ہوں گی کیونکہ آپس میں مربوط اس دنیا میں ہر ایک کو منفی اثرات کا کسی نہ کسی طرح صورت میں سامنا کرنا ہی پڑے گا۔"
محققین نے مشورہ دیاہے کہ درجہ حرارت کو بڑھنے سے روکنے کے لیے گرین ہاوس گیسوں، بالخصوص فوصل ایندھن سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ، کو کم کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر تبدیلیاں نہیں کی گئیں تو درمیانی آمدنی والے اور کم آمدنی والے ممالک سب سے زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔
ج ا / ص ز (نیوز ایجنسیاں)