موسمياتی تبديليوں کے نتيجے ميں پيدا ہونے والی شديد گرمی مزدوروں کے کام اور ان کی اجرتوں کو منفی طور پر متاثر کر رہی ہے۔ اگر معاملات يوں ہی آگے بڑھتے رہے، تو وہ وقت دور نہيں کہ مزدوروں کی پيداوار بيس فيصد تک گھٹ جائے گی۔
اشتہار
يورپ ميں گزشتہ دنوں درجہ حرارت پينتيس ڈگری سينٹی گريڈ تک پہنچا تو کھلی فضا ميں کام کرنے والوں سے لے کر دفاتر ميں ملازمت کرنے والے، سب ہی کی طرف سے شديد تھکن کی شکايات سامنے آنے لگيں۔ ليکن اگر جنوبی ايشيا اور افريقہ پر نظر ڈالی جائے، تو ان خطوں ميں لوگوں کو سال کے بيشتر ماہ ايسی ہی شديد گرمی ميں کام کاج کرنا پڑتا ہے۔
گرمی کی شدت ميں اضافے اور پيداوار ميں کمی کا تعلق
کم آمدنی والی ملازمتوں سے وابستہ ايسے افراد جو زراعت، کنسٹرکشن اور کھلی فضا ميں ديگر کام کرتے ہيں، انہيں شديد گرمی کی وجہ سے دباؤ کا زيادہ سامنا رہتا ہے۔ اس کا صحت پر اثر تھکاوٹ، لُو لگنے يا کبھی کبھار موت کی صورت ميں بھی نکل سکتا ہے۔ محققين البتہ اس نتيجے پر پہنچے ہيں کہ شديد گرمی کا براہ راست اثر مزدور کی پيداوار پر پڑتا ہے۔
اگر دنيا کا درجہ حرارت انديشوں کے مطابق ساڑھے تين فيصد تک بڑھا، تو سن 2100 تک جنوبی افريقہ ميں فی فرد مجموعی قومی پيداوار بيس فيصد تک گر سکتی ہے۔ گزشتہ برس کرائے گئے ايک مطالعے ميں يہ سامنے آيا ہے کہ زراعت، کان کنی، کنسٹرکشن اور ديگر کم تربيت يافتہ اور کم آمدنی والے افراد اس سے سب سے زيادہ متاثر ہوں گے۔
گرمی کی شدت میں اضافہ، شمسی توانائی کی کاروں کا روشن مستقبل
01:52
انٹرنيشنل ليبر آرگنائزيشن (ILO) نے بھی اس مد ميں دو برس قبل ايک مطالعہ کرايا تھا۔ اس ميں يہ بات سامنے آئی کہ شديد گرمی اور درجہ حرارت ميں اضافہ سن 2030 تک ملازمت کے اسی ملين مواقع کے ضياع کا سبب بن سکتے ہيں۔ يعنی اس دہائی کے اختتام تک دنيا بھر ميں کام کاج کا مجموعی دورانيہ 2.2 فيصد کم ہو سکتا ہے۔ جنوبی ايشيا ميں پاکستان سميت کئی ممالک، جہاں شديد گرمی پڑتی ہے، وہاں يہ شرح اور بھی بلند پانچ فيصد تک ہو سکتی ہے۔ مجموعی طور پر اگر دنيا کے درجہ حرارت ميں اس صدی کے اختتام تک ساڑھے تين فيصد کا اضافہ نوٹ کيا گيا، تو اقتصادی پيداوار بيس فيصد تک کم ہو سکتی ہے۔
اٹلی کے شہر وينس ميں قائم يورو ميڈيٹرينيئن سينٹر آن کلائميٹ چينج (CMCC) سے منسلک شورو داس گپتا کے بقول، ''تيزی سے بڑھتی ہوئی گرمی ميں آپ کام بھی کم کر پائيں گے اور اس کے نتيجے ميں آپ کی آمدنی بھی کم ہو جائے گی۔‘‘ داس گپتا کے مطابق زيادہ آمدنی والے افراد کی نسبت کم آمدنی والے افراد زيادہ نقصان اٹھائيں گے۔ انہوں نے مزيد تنبيہ کی کہ صرف يہی نہيں بلکہ اس ممکنہ پيش رفت کے نتيجے ميں وسيع پيمانے پر نقل مکانی اور ہجرت بھی ديکھنے ميں آ سکتی ہے۔ ''لوگ غريب اور گرم علاقوں سے متوسط اور ٹھنڈے علاقوں کی جانب نقل مکانی کريں گے۔‘‘
موسمياتی تبديلياں پاکستان کو کيسے متاثر کر رہی ہيں؟
پانی کی قلت، قدرتی آفات ميں اضافہ اور شديد گرمی کی لہریں۔ يہ سب اس بات کی نشانياں ہيں کہ موسمياتی تبديلياں پاکستان کو کس طرح متاثر کر رہی ہيں اور مستقبل ميں کيا کچھ ہونے والا ہے۔ ديکھيے اس بارے ميں ايک پکچر گيلری۔
تصویر: REUTERS/M. Raza
پاکستانی عوام کو لاحق خطرات
پاکستان ’گلوبل وارمنگ‘ يا عالمی درجہ حرارت ميں اضافے کا سبب بننے والی ’گرين ہاؤس‘ گيسوں کے عالمی سطح پر اخراج کا صرف ايک فيصد کا حصہ دار ہے تاہم اس کے باوجود موسمياتی تبديليوں و درجہ حرارت ميں اضافے سے پاکستان کی دو سو ملين سے زائد آبادی کو سب سے زيادہ خطرات لاحق ہيں۔ سن 2018 کے ’گلوبل کلائمیٹ رسک انڈيکس‘ ميں پاکستان ان ممالک کی فہرست ميں شامل ہے، جو موسمياتی تبديليوں سے سب سے زيادہ متاثر ہوں گے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
پاکستان سب سے زيادہ متاثرہ خطے ميں واقع
جغرافيائی لحاظ سے پاکستان مشرق وسطی و جنوبی ايشيا کے وسط ميں واقع ہے۔ پيش گوئيوں کے مطابق اسی خطے ميں درجہ حرارت ميں اضافے کی رفتار سب سے زيادہ رہے گی۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کی ايک سابقہ رپورٹ کے مطابق سن 2100 يا اس صدی کے اختتام تک اس خطے ميں اوسط درجہ حرارت ميں چار ڈگری سينی گريڈ تک کا اضافہ ممکن ہے۔
جان و مال کا نقصان
جرمن واچ نامی تھنک ٹينک کے 2018ء کے ’گلوبل کلائمیٹ رسک انڈيکس‘ کے مطابق پچھلے قريب بيس برسوں ميں موسمياتی تبديليوں کے اثرات کے سبب پاکستان ميں سالانہ بنيادوں پر 523.1 اموات اور مجموعی طور پر 10,462 اموات ريکارڈ کی گئيں۔ اس عرصے ميں طوفان، سيلاب اور ديگر قدرتی آفات کے سبب تقريباً چار بلين امريکی ڈالر کے برابر مالی نقصانات بھی ريکارڈ کيے گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A.Naveed
کراچی کو خطرہ لاحق
1945ء ميں پاکستان بھر ميں چار لاکھ ہيکٹر زمين پر مينگرو کے جنگل تھے تاہم اب يہ رقبہ گھٹ کر ستر ہزار ہيکٹر تک رہ گيا ہے۔ مينگرو کے درخت سونامی جيسی قدرتی آفات کی صورت ميں دفاع کا کام کرتے ہيں۔ کراچی ميں سن 1945 ميں آخری مرتبہ سونامی آيا تھا۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق بحر ہند ميں کسی بڑے زلزلے کی صورت ميں سونامی کی لہريں ايک سے ڈيڑھ گھٹنے ميں کراچی پہنچ سکتی ہيں اور يہ پورے شہر کو لے ڈوبيں گی۔
تصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images
سيلاب اور شديد گرمی کی لہريں
پاکستان ميں سن ميں آنے والے سيلابوں کے نتيجے ميں سولہ سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ سيلابی ريلوں نے ساڑھے اڑتيس ہزار اسکوائر کلوميٹر رقبے کو متاثر کيا اور اس کے مالی نقصانات کا تخمينہ دس بلين ڈالر تھا۔ کراچی سے تين برس قبل آنے والی ’ہيٹ ويو‘ يا شديد گرمی کی لہر نے فبارہ سو افراد کو لقمہ اجل بنا ديا۔ ماہرين کے مطابق مستقبل ميں ايسے واقعات قدرتی آفات ميں اضافہ ہوتا جائے گا۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
پاکستان کيسے بچ سکتا ہے؟
موسمياتی تبديليوں کے منفی اثرات سے بچنے کے ليے پاکستان کو سالانہ بنيادوں پر سات سے چودہ بلين ڈالر درکار ہيں۔ فی الحال يہ واضح نہيں کہ يہ فنڈز کہاں سے مليں گے؟ پاکستان کی سينيٹ نے پچھلے سال ايک پاليسی کی منظوری البتہ دے دی تھی، جس کے مطابق پاکستان ميں موسمياتی تبديليوں کے اثرات سے پچنے کے ليے ايک اتھارٹی قائم کی جانی ہے۔
تصویر: REUTERS/M. Raza
پاکستان کيا کچھ کر سکتا ہے؟
سن 2015 ميں طے ہونے والے پيرس کے معاہدے ميں پاکستان نے سن 2030 تک ’گرين ہاؤس‘ گيسوں کے اخراج ميں تيس فيصد کمی لانے کا ہدف مقرر کیا تھا۔ اس پر تقريباً چاليس بلين ڈالر کے اخراجات آئيں گے۔ پاکستان نے يہ ہدف خود مقرر کیا تھا۔