1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شرح پیدائش میں کمی چینی معیشت کو کیسے متاثر کرے گی؟

23 جنوری 2022

سن 2021 میں بھی چین میں شرح پیدائش کم رہی۔ اس کمیونسٹ ملک میں گزشتہ ایک دہائی سے بچوں کی پیدائش میں کمی نوٹ کی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے مسقتبل قریب میں ہی چین مین انسانی وسائل کی کمی کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔

Weltspiegel | 02.06.2021 | China  - Abkehr von der Ein-Kind Politik
تصویر: Noel Celis/AFP/Getty Images

پیر کے دن چینی حکومت کی طرف سے نئے اعدادوشمار جاری کیے گئے، جس کے مطابق سن دو ہزار اکیس میں بھی گزشتہ ایک عشرے سے جاری وہ رحجان حاوی نظر آیا، جس میں چینی شہری بچے پیدا کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔

یہ پیش رفت چینی حکومت کے لیے پریشانی کا باعث ہے کیونکہ ملک میں نہ صرف انسانی وسائل کی کمی رونما ہو رہی ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی بیجنگ حکومت کے ان عزائم کو بھی خطرہ لاحق ہوتا جا رہا ہے، جن کے تحت وہ اپنی قومی دولت میں اضافہ اور عالمی سطح پر اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہتی ہے۔

حکومتی اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ برس چین میں دس اعشاریہ چھ ملین بچے پیدا ہوئے، جو سن دو ہزار بیس کے مقابلے میں بارہ فیصد کم تھے۔ سن دو ہزار بیس میں چین میں بارہ ملین کے لگ بھگ بچے پیدا ہوئے تھے۔

حکومتی منصوبہ جات پر نظر ثانی کی ضرورت

قومی دفتر برائے شماریات کے مطابق سن دو ہزار اکیس کے اختتام تک چین کی مجموعی آبادی ایک اعشاریہ چار سو تیرہ بلین نوٹ کی گئی، جس کا مطلب ہے کہ گزشتہ ایک برس میں چین کی آبادی میں صرف چار لاکھ اسی ہزار نفوس کا اضافہ ہوا۔

آبادی کی شرح میں اس کمی کی وجہ سے چینی حکومت کو اپنی اس پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑ سکتی ہے، جس کے تحت وہ ایکسپورٹ اور سرمایہ کاری کے بجائے صارفین کے اخراجات کے پیش نظر نئی ٹیکنالوجی اور اقتصادی ترقی کے منصوبہ جات بنائے ہوئے ہے۔

چینی عورتیں بچے کیوں پیدا نہیں کرنا چاہتیں؟

01:33

This browser does not support the video element.

چین میں ریٹائر ہونے والے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے جبکہ ان ملازمتوں کے لیے مطلوبہ انسانی وسائل کی کمی کی وجہ سے چین کی معشیت کو بھی نقصان ہو سکتا ہے۔ ماہرین چینی آبادی میں اضافے میں مسلسل اور بتدریج ہونے والی اس کمی کو ایک ٹائم بم بھی قرار دے رہے ہیں۔

چین نے سن انیس سو اسی میں آبادی پر کنٹرول اور وسائل کی بچت کی خاطر بچوں کی پیدائش کو محدود بنانے کے لیے قانون سازی کی تھی تاہم سن دو ہزار گیارہ میں اس حوالے سے خدشات ظاہر کیے جانے لگے تھے۔

سن دو ہزار پندرہ میں حکمران پارٹی نے اس پابندی کو ختم کیا لیکن بالخصوص ماؤں کے لیے ملازمت کے مشکل اوقات اور امتیازی سلوک کے علاوہ مہنگائی کی وجہ سے چینی والدین نے خاندانی منصوبہ بندی پر عمل جاری رکھا۔  

چینی معیشت کا انحصار مزدورں پر 

ماہرین مردم شماریات نے خبردار کیا ہے کہ آبادی میں اضافے کا تناسب اگر یہی رہا تو سن دو ہزار پچاس تک چین میں ورکنگ کلاس نصف رہ جائے گی۔

 چین میں انسانی وسائل میں کمی کے حوالے سے یہ خدشات ایک ایسے وقت میں ظاہر ہو رہے ہیں، جب چینی صدر شی جن پنگ کی قیادت میں حکمران کمیونسٹ پارٹی نے دفاعی بجٹ میں بے انتہا اضافہ کیا ہے اور عالمی اقتصادی مقابلہ بازی میں الیکٹرک کاروں اور جدید ٹیکنالوجی کے شعبہ جات میں حکومتی اخراجات بڑھائے ہیں۔

جاپان، جرمنی اور کچھ دیگر امیر صنعتی ممالک میں آبادی میں کمی اور ورکنگ کلاس کی بڑھتی ہوئی عمروں کو ایک مسئلہ قرار دیا جا رہا ہے تاہم یہ ممالک فیکٹریوں، ٹیکنالوجی اور غیر ملکی اثاثوں پر سرمایہ کاری سے اس مشکل سے نمٹ سکتے ہیں تاہم چین کی اقتصادیات کا زیادہ تر دارومدارد کاشت کاری اور مزدوری سے جڑے شعبہ جات سے، جس کے لیے انسانی وسائل ناگزیر ہیں۔

ع ب، ع ت (اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں