شریف برادران انتخابات میں شرکت کے اہل
26 مئی 2009فیصلہ سننے کے بعد عدالت کے باہر موجود مسلم لیگ نواز کے کارکنوں نے زبردست جشن منایا اور بھنگڑے ڈالے۔ اس موقعے پر موجود پاکستان مسلم لیگ نواز کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات احسن اقبال نے عدالتی فیصلے کو پاکستانی عوام کی فتح قرار دیتے ہوئے کہا: ’’ہمیں خوشی ہے کہ یہ حق کسی ڈکٹیٹر سے مراعات میں نہیں ملا، کسی سمجھوتے یا ڈیل کے نتیجے میں نہیں ملا بلکہ اپنے اصولوں پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے ہمیں یہ عزت دوبارہ دی ہے اور پارلیمنٹ میں نواز شریف کی موجودگی جمہوریت کی مضبوطی کا باعث بنے گی۔‘‘
دوسری طرف صدر آصف زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی شریف برادران کی اہلیت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ملکی سیاست کےلئے مثبت قرار دیا۔ ایوان صدر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں صدرآصف علی زرداری نے کہا کہ نواز شریف انتخابات میں حصہ لینے کی اہلیت کے بعد ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کےلئے مزید اہم کردار ادا کر سکتے ہیں جبکہ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمن نے ڈوئچے ویلے کو بتایا: ’’جب بڑی سیاسی قوتیں ایک ساتھ مل کر کام کریں تو ملک کی بقا کے لئے اور آئندہ دنوں میں ہونے والے فیصلوں کے دوران اتحاد پیدا کرنے کےلئے ضرور ایک بہتر راستہ ہوگا۔‘‘
تاہم بعض قانونی ماہرین اس عدالتی فیصلے پر سیاستدانوں سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ اس کا اظہار سپریم کورٹ کے سابق جج وجیہہ الدین احمد نے کچھ یوں کیا:
’’میں سمجھتا ہوں کہ اس فیصلے میں بہت جلدبازی کا استعمال کیا گیا ہے اور اس نوعیت کے پیش نظر میرے خیال میں یہ کوئی اچھی عدالتی روایت نہیں ہے۔‘‘
تجزیہ نگاروں کے مطابق نواز شریف اپنی جماعت کا گڑھ سمجھے جانے والے شہروں لاہور اور راولپنڈی میں قومی اسمبلی کی دو خالی نشستوں میں جس پر بھی چاہیں باآسانی منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں پہنچ سکتے ہیں اور ان کی پارلیمنٹ میں موجودگی یقینا مسلم لیگ نواز کی سیاسی طاقت میں اضافے کا سبب ہوگی۔