شفاف اورآزادانہ انتخابات کی توقع نہیں، انسانی حقوق کمیشن
شیراز راج
18 جولائی 2018
سیاسی جماعتوں کے علاوہ انسانی حقوق کمیشن، سیفما اور یورپی یونین کے انتخابی مبصرین کی ٹیم نے انتخابات کی شفافیت کے متعلق خدشات کا اظہار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی غیر جانبداری پر سوال اٹھائے ہیں۔
اشتہار
اسلام آباد میں چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا خان سے خصوصی ملاقات میں اپنے خدشات اور مطالبات پیش کرنے کے بعد انسانی حقوق کمیشن نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا ہے کہ آئندہ انتخابات پاکستان کی انتخابی تاریخ کے متنازعہ ترین انتخابات ہوں گے۔ انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے کہ آئندہ انتخابات میں بہت بڑے پیمانے پر سیاسی جماعتوں کی مخالفت اور حق میں، مداخلت کی جائے گی۔ کمیشن کے سابق سیکرٹری اور سینیئر صحافی،آئی اے رحمان کا کہنا تھا، "ہمیں سنجیدہ خدشات ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ انتخابات آزادانہ اور شفاف نہیں ہوں گے۔" انکا کہنا تھا کہ قبل از انتخابات دھاندلی کے واضح ثبوت موجود ہیں جنہیں الیکشن کمیشن کے گوش گزار کیا گیا ہے۔ انہیں بتایا گیا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے امیدواروں اور کارکنوں کو حراساں کیا جا رہا ہے اور اسکے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ واپس کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ آئی اے رحمان کے مطابق، "ہم پولنگ اسٹیشنز کے اندر فوجیوں کی تعیناتی کے فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔" انہوں نے کہا کہ "سیاسی کارکنوں کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات قائم کرنا انتہائی قابل مذمت ہے۔"
انسانی حقوق کمیشں کے نمائندہ وفد نےمیڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ چیف الیکشں کمشنر سے ملاقات کے دوران انہیں آگاہ کیا گیا کہ میڈیا خصوصا" ڈان اور دی نیوز کو کس طرح ہراساں کیا گیا ہے اور کس طرح میڈیا کو بعض امیدواروں کے اشتہارات شائع کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ چیف الیکشں کمشنر ان تمام حقائق سے یکسر لاعلم تھے۔ مثال کے طور پرکالعدم تنظیموں کے کھلے عام کام کرنے کے حوالے سے کمشنر کا کہنا تھا کہ اگر کوئی کالعدم تنظیم متحرک ہے تو انہیں اس بارے میں فورا" آگاہ کیا جائے۔
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
پاکستانی تاریخ میں کئی بحران سامنے آتے رہے۔ کبھی فوج براہ راست اقتدار میں رہی اور کبھی بلواسطہ۔ کئی منتخب حکومتیں اپنی مدت مکمل نہ کر پائیں۔ پاکستان کی پیچیدہ سیاسی تاریخ کے کچھ اہم واقعات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1947 – آزادی اور پہلا جمہوری دور
برطانیہ سے آزادی کے بعد ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور مسلم اکثریتی علاقوں پر مبنی نیا ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح ملک کے پہلے گورنر جنرل بنے اور لیاقت علی خان کو ملکی وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ ٹی بی کے مرض میں مبتلا محمد علی جناح قیام پاکستان کے ایک برس بعد ہی انتقال کر گئے۔
تصویر: AP
1951
وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ وہ شہر کے کمپنی باغ میں منعقدہ ایک جلسے میں شریک تھے جہاں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور انہیں دو گولیاں لگیں۔ پولیس نے حملہ آور کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ لیاقت علی خان کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اس بحرانی صورت حال میں خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
تصویر: OFF/AFP/Getty Images
1958 – پہلا فوجی دور
پاکستان کا پہلا آئین سن 1956 میں متعارف کرایا گیا تاہم ملکی صدر اسکندر مرزا نے دو سال بعد 1958 میں آئین معطل کر کے مارشل لا لگا دیا۔ کچھ دنوں بعد ہی فوجی سربراہ جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو اقتدار سے برطرف کر دیا اور خود صدر بن گئے۔ یوں پہلی مرتبہ پاکستان میں اقتدار براہ راست فوج کے پاس چلا گیا۔
تصویر: imago stock&people
1965
ایوب خان نے پاکستان میں امریکا جیسا صدارتی نظام متعارف کرایا اور سن 1965 میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ وہ پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے صدارتی امیدوار بن گئے اور ان کا مقابلہ بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح سے ہوا۔ فاطمہ جناح کو زیادہ ووٹ ملے لیکن ایوب خان ’الیکٹورل کالج‘ کے ذریعے ملکی صدر بن گئے۔
تصویر: imago stock&people
1969
انتخابات میں فاطمہ جناح کی متنازعہ شکست اور بھارت کے ساتھ 1965 کی جنگ کے بعد ایوب خان کی ساکھ کافی متاثر ہوئی اور ان کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ ایوب خان نے اقتدار جنرل یحیی خان کے حوالے کر دیا اور ملک میں ایک مرتبہ پھر مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1970
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ مشرقی پاکستان کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کی عوامی جماعت نے قومی اسمبلی کی کل تین سو نشستوں میں سے 160 نشستیں حاصل کر لیں جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت 81 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ تاہم عوامی لیگ کو اقتدار نہیں سونپا گیا۔
تصویر: Journey/M. Alam
1971
یہ تنازعہ شدت اختیار کر گیا اور پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ بھارت بھی اس تنازعے میں کود پڑا اور جنگ کے بعد پاکستان تقسیم ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کی جگہ ایک نیا ملک بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا۔
تصویر: Journey/R. Talukder
1972 – دوسرا جمہوری دور
مارشل لا ختم کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ملکی صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے اسی برس ملکی جوہری پروگرام کا آغاز بھی کیا۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
1973
پاکستان میں نیا ملکی آئین تشکیل پایا جس کے مطابق ملک میں پارلیمانی جمہوریت متعارف کرائی گئی۔ ایوان زیریں اور ایوان بالا تشکیل دی گئی اور حکومت کی سربراہی وزیر اعظم کے عہدے کو دی گئی۔ بھٹو صدر کی بجائے وزیر اعظم بن گئے۔ سن 1976 میں بھٹو نے جنرل ضیا الحق کو ملکی فوج کا سربراہ مقرر کیا جو بعد میں ان کے لیے مصیبت بن گئے۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1977 – دوسرا فوجی دور
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جن میں بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی۔ بھٹو کے خلا ف انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ صورت حال کا فائدہ اٹھاتے جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو اقتدار سے ہٹا کر ملکی آئین معطل کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا لگا دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1978
جنرل ضیا الحق نے آرمی چیف کے عہدے کے ساتھ ملکی صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ سن 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کو ’قتل کی سازش‘ کے ایک مقدمے میں قصور وار قرار دتیے ہوئے پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ ضیا الحق نے اسی برس ملک میں حدود آرڈیننس جیسے متنازعہ قوانین متعارف کرائے اور ’اسلامائزیشن‘ کی پالیسی اختیار کی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1985
ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے۔ مارشل لا ہٹا دیا گیا اور جنرل ضیا کو آٹھ سال کی مدت کے لیے صدر جب کہ محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ اس سے ایک برس قبل جنرل ضیا نے اپنی ’اسلامائزیشن‘ پالیسی کے بارے میں ریفرنڈم کرایا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ 95 فیصد عوام نے اس کی حمایت کی تھی۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1988
بڑھتے ہوئے اختلافات کے باعث ضیا الحق نے آئینی شق اٹھاون دو بی کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم جونیجو کو برطرف اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ انہوں نے نوے دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کا پھر سے وعدہ بھی کیا تاہم اسی برس سترہ اگست کے روز جہاز کے حادثے میں ضیا الحق اور دیگر اکتیس افراد ہلاک ہو گئے۔
تصویر: PHILIPPE BOUCHON/AFP/Getty Images
1990
پاکستانی صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی اور اسمبلیاں بھی تحلیل کر دیں۔ نئے انتخابات کا انعقاد کرایا گیا اور ضیا دور میں سیاست میں اترنے والے نواز شریف ملکی وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ اگلے برس اسمبلی نے ’شریعہ بل‘ منظور کیا اور اسلامی قوانین ملکی عدالتی نظام کا حصہ بنا دیے گئے۔
تصویر: imago/UPI Photo
1993
صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو بھی بدعنوان قرار دیتے ہوئے برطرف کر دیا۔ خود انہوں نے بھی بعد ازاں صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ عام انتخابات کا انعقاد ہوا اور بینظیر بھٹو دوسری مرتبہ ملکی وزیر اعظم بنیں۔ پیپلز پارٹی ہی کے فاروق لغاری ملکی صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Frazza
1996
صدر لغاری نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور بینظیر حکومت کو برطرف کر دیا۔ ایک دہائی کے اندر پاکستان میں چوتھی مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد کرایا گیا۔ نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور وہ دوسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1998
پاکستان نے صوبہ بلوچستان میں واقع چاغی کے پہاڑوں میں جوہری ہتھیاروں کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس سے چند روز قبل بھارت نے بھی جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کیا تھا۔ ایٹمی تجربوں کے بعد عالمی برادری نے پاکستان پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔
تصویر: picture alliance / dpa
1999 – فوجی اقتدار کا تیسرا دور
کارگل جنگ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ان کے عہدے سے برطرف کر کے جنرل ضیا الدین عباسی کو ملکی فوج کا سربراہ تعینات کر دیا۔ تاہم فوج نے فوری طور پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے نواز شریف کو گرفتار کر لیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ملکی اقتدار سنبھال لیا۔
تصویر: SAEED KHAN/AFP/Getty Images
2000
پاکستان کی سپریم کورٹ نے مارشل لا کی توثیق کر دی۔ اسی برس شریف خاندان کو جلاوطن کر کے سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ جنرل مشرف سن 2001 میں پاکستان کے صدر بن گئے۔ انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
2002
جنرل پرویز مشرف ایک ریفرنڈم کے بعد مزید پانچ برس کے لیے ملکی صدر بن گئے۔ اسی برس عام انتخابات بھی ہوئے جن میں پاکستان مسلم لیگ ق نے کامیابی حاصل کی۔ یہ جماعت جنرل پرویز مشرف نے بنائی تھی۔ ظفراللہ خان جمالی کو وزیراعظم تعینات کیا گیا تاہم دو برس بعد ان کی جگہ شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ جنرل مشرف نے ترامیم کے بعد سن 1973 کا ملکی آئین بحال کر دیا۔
تصویر: AP
2007
جنرل مشرف نے ملکی چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جس کے بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہو گئے۔ افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا گیا تاہم بعد ازاں جنرل مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ دریں اثنا ملکی پارلیمان نے پہلی مرتبہ اپنی پانچ سالہ مدت بھی مکمل کی۔
تصویر: AP
2007
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما بینظیر بھٹو ایک مفاہمت کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وطن واپس لوٹ آئیں۔ بعد ازاں نواز شریف کو بھی سعودی عرب سے وطن واپس آنے کی اجازت مل گئی۔ انتخابی مہم کے دوران راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد بینظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images
2008– چوتھا جمہوری دور
بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد منعقد ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔ یوسف رضا گیلانی ملکی وزیر اعظم بنے جب کہ بنظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری نے ملکی صدر بننے کو ترجیح دی۔ الزامات اور تنازعات کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سالہ مدت مکمل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Getty Images
2013
اس برس کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون نے کامیابی حاصل کی اور ملکی آئین میں ترامیم کے باعث نواز شریف تیسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔ پیپلز پارٹی سندھ جب کہ پی ٹی آئی صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
تصویر: AFP/Getty Images
2017
تین مرتبہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو کرپشن کے الزامات کے باعث کرسی سے محروم ہونا پڑا۔ سپریم کورٹ نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے اور کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ نواز شریف نے فوج پر الزامات عائد کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اختیار کیا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
2018
پاکستان میں پھر انتخابات ہونے والے ہیں۔ نواز شریف کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت ان کے بھائی شہباز شریف کر رہے ہیں۔ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزائیں ہو چکی ہیں۔ بظاہر مسلم لیگ نون اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی جانب سے دباؤ کا شکار ہے۔ عمران خان کو امید ہے کہ اس مرتبہ ان کی جماعت جیتنے میں کامیاب رہے گی۔ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو عملی سیاست میں اتار چکی ہے۔ انتخابات کا انعقاد 25 جولائی کو ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/empics/D. Farmer
26 تصاویر1 | 26
انسانی حقوق کمیشن کے وفد نے الیکشں کمشن سے فوری اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک خوف و ہراس کی فضا قائم کر دی گئی ہے، میڈیا پر غیر اعلانیہ سنسرشپ عائد ہے، صحافیوں اور صحافتی اداروں کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے اور غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرکے انہیں چند سیاسی جماعتوں اور انکے راہنماؤں کی حمایت یا مخالفت پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ، "مسلم لیگ (ن) کے خلاف پنجاب میں اور پیپلزپارٹی کے خلاف سندھ میں امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے اور انکی مخالف جماعتوں اور دھڑوں کو مضبوط کیا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے حامی یا اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو تشدد، اغوا، دھمکیوں اور سنسرشپ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔"
دہشت گردی کے حالیہ واقعات کا ذکر کرتے ہوئے انسانی حقوق کمیشن کی کونسل رکن، اور معروف وکیل، حنا جیلانی کا کہنا تھا کہ "جن مذہبی انتہا پسند قوتوں کو ختم کیا جانا چاہیے تھا وہ نہ صرف ابھی تک قائم ہیں بلکہ حملے کر رہی ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ آئندہ انتخابات جس ماحول میں منعقد کرائے جا رہے ہیں، اسکا نتائج پر اثر پڑے گا کیونکہ سیاسی جوڑتوڑ اور اکھاڑ پچھاڑ کی جا رہی ہے۔" انتخابی عمل میں فوج کو غیر معمولی کردار اور اختیارات دینے کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا، " ساڑھے تین لاکھ سکیورٹی اہلکار تعینات کیے جا رہے ہیں اور انہیں مجسٹریٹ کے اختیارات دیے جا رہے ہیں۔"
دوسری طرف معروف صحافتی ادارے، سیفما نے پندرہ جولائی کو ایک سیمینار منعقد کیا جس کا عنوان تھا "انتخابات میں مداخلت بند کرو اور آزادانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بناؤ"۔ اس سیمینار میں بارہ نکاتی ایجنڈا پیش کیا گیا۔ اس میں جو مطالبات پیش کیے گیے ان میں، "غیر منتخب اداروں کی جانب سے انتخابی عمل میں جاری مداخلت کا فوری خاتمہ، ووٹنگ کے عمل میں کسی قسم کی مداخلت نہ ہونے کی یقین دہانی، تمام فریقین کی جانب سے ضابطہ اخلاق پرمکمل عمل کی یقین دہانی" جیسے مطالبات شامل تھے۔ اس کے علاوہ سیفما سیمینار میں نیب سے مطالبہ کیا گیا کہ انتخابات پر اثرانداز ہونے کے لیے "محدود احتساب" کا سلسلہ ختم کرے۔ اسی طرح مطالبہ کیا گیا کہ کالعدم تنظیموں کے انتخابات میں حصہ لینے پر فورا" پابندی لگائی جائے، میڈیا اور سوشل میڈیا سے تمام دباؤ دور کیا جائے، ریاستی اداروں کے اہلکار انتخابی عمل میں اپنی خدمات سر انجام دیتے ہوئے اپنے آئینی ذمہ داریوں اور حلف کا پاس رکھیں۔ سیفما کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ "ملکی اور غیر ملکی انتخابی مبصرین کو مکمل سہولتیں اور آزادی فراہم کی جائے۔"
پہلی مرتبہ دس فیصد خواتین کا ووٹ ڈالنا لازمی
01:45
تاہم یورپی یونین کے مبصر مشن کی جانب سے جاری کردہ ایک حالیہ خط کے مطابق،"ہم جون کے ابتدائی دنوں میں پاکستان آنے کے لیے بالکل تیار تھے لیکن انتظامی تاخیر اسقدر کی گئی کہ ہماری ٹیم 24 جون کو پہنچ سکی اور ہمارے 60 طویل المدتی مبصرین جولائی کے آغاز میں پاکستان پہنچ سکے۔ اس مختصر وقت میں ہماری مبصر ٹیم کے لیے اپنا کام کماحقہ سرانجام دینا مشکل ہے۔ ای یو مشن کے لیے ملک کے مختلف حصوں میں جاری انتخابی ماحول کا مشاہدہ کرنا اور مقامی سطح پر انتطامیہ کے کام کو دیکھنا مشکل ہو گیا ہے۔"
ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے راہنما، سید مشاہد حسین نے کہا، "اس وقت تمام جمہوری جماعتیں قبل از انتخابات دھاندلی کی دہائی دے رہی ہیں۔ الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے کہ سب کو مساوی مواقع فراہم کرے۔ تیرہ جولائی کو ہم نے پرامن عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا لیکن ہماری قیادت اور کارکنوں کے خلاف 130 مختلف دفعات کے تحت 16868 مقدمات قائم کیے گئے۔ ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔"
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ایک "دھاندلی مخالف نظام" متعارف کروایا۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک سیاسی جماعت نے باقاعدہ طور پر دھاندلی کی پیش بندی کی ہے اور اسے ناکام بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس نظام کے تحت مختلف حلقوں کے امیدواروں کے درمیان رابطے کا نظام، اطلاعات کی فوری فراہمی، قانونی امداد کے لیے ایک خصوصی کمیٹی، سوشل میڈیا ٹیم کی خصوصی تربیت اور ملکی اور غیر ملکی مبصر ٹیموں کے ساتھ ہاٹ لائن رابطہ ہو گا۔ دھاندلی کے مرتکب ہونے والے کسی بھی شخص کے خلاف فوری طور پر کارروائی کی جائے گی اور اسے سوشل میڈیا پر 'ایکسپوز' کیا جائے گا۔
معروف صحافی، انسانی حقوق کی کارکن اور ایچ آر سی پی کی کونسل رکن، ماروی سرمد نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جموری طاقتوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے، میڈیا کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور اپنی پسندیدہ جماعت کو جتوانے کے لیے ہر ممکن ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ماروی سرمد کے الفاظ میں، "عدلیہ، الیکشن کمشن اور نیب، سبھی 'خلائی مخلوق' کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں ہیں جسکا مقصد ایک کمزور، منقسم اور باہم متحارب پارلیمان کا قیام ہے جو بنیادی فیصلے کرنے کے اختیار اور طاقت سے عاری ہو۔"
ماروی سرمد کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ درحقیقت آئین میں تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے کی جانے والی اٹھارویں ترمیم ختم کرنا چاہتی ہے۔ ’’وہ ایک کٹھ پتلی حکومت چاہتی ہے اور اسی لیے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے‘‘۔