شمالی افریقہ سے آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں کمی
25 اپریل 2016
جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت و مہاجرین (بی اے ایم ایف) کے آج بروز پیر جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق شمالی افریقی ممالک سے جرمنی آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔
اشتہار
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق پناہ کی تلاش میں جرمنی کا رخ کرنے والے الجزائر، تیونس اور مراکش سمیت شمالی افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
بی اے ایم ایف کی جانب سے جرمنی کی وفاقی پارلیمان میں پیش کی گئی ایک دستاویز میں لکھا گیا ہے کہ رواں برس جنوری کے مہینے میں جرمنی میں پناہ کی درخواست دینے والے شمالی افریقی باشندوں کی تعداد 3356 تھی، جو فروری میں کم ہو کر 599، جب کہ مارچ میں مزید کمی کے بعد 480 رہ گئی۔
بی اے ایم ایف کے مطابق اس کمی کی ایک اہم اور بڑی وجہ رواں برس جنوری کے مہینے میں جرمنی کی جانب کی گئی وہ قانونی تبدیلی ہے جس کے تحت تیونس، الجزائر اور مراکش کو محفوظ ملک قرار دے دیا گیا تھا۔ نام نہاد ’محفوظ ممالک‘ سے آنے والے تارکین وطن کو جرمنی میں سیاسی پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہوتے ہیں۔
جرمنی کے شہر کولون میں سال نو کی تقریبات کے موقع پر خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے سینکڑوں واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ جنسی حملوں سے متاثر ہونے والی خواتین اور عینی شاہدین کے بیانات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ منظم طریقے سے جنسی حملے کرنے والے گروہوں میں شامل زیادہ تر افراد کا تعلق شمالی افریقی ممالک سے تھا۔
یورپ میں بہتر زندگی کا ادھورا خواب، ملک بدر ہوتے پاکستانی
02:33
اس واقعے کے بعد جرمن عوام میں شدید غم و غصہ دیکھا گیا تھا۔ عوامی ردِ عمل کے بعد جرمن حکومت نے مذکورہ بالا تینوں شمالی افریقی ممالک کو ’محفوظ ملک‘ قرار دے دیا تھا۔
گزشتہ برس جرمنی میں نئے آنے والے گیارہ لاکھ سے زائد پناہ گزینوں میں شمالی افریقی باشندوں کی تعداد کافی کم تھی۔ وفاقی دفتر برائے مہاجرت و مہاجرین کے اعداد و شمار کے مطابق 2015ء میں الجزائر، تیونس اور مراکش سے آنے والے تارکین وطن کی تعداد چھبیس ہزار سے کچھ زائد تھی۔
گزشتہ برس اس خطے سے آنے والے غیر ملکیوں کو جرمنی میں پناہ ملنے کا تناسب دو فیصد کے قریب رہا تھا جو کہ اس برس مزید کم ہو کر محض 0.7 فیصد رہ گیا ہے۔
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔