شمالی جرمنی میں افراتفری کا سبب، جنوبی امریکا کے بڑے پرندے
عاصم سلیم Alistair Walsh
16 دسمبر 2018
جرمنی ميں زراعت سے متعلق گروپوں نے اعلان کيا ہے کہ جنوبی امريکا سے تعلق رکھنے والے ’ريا‘ نامی ديو قامت پرندوں کی ايک نسل، آبادی ميں زبردست اضافے کے بعد ان دنوں شمالی جرمنی ميں فصلوں کے لیے مسائل کا سبب بن رہی ہے۔
اشتہار
موسم خزاں ميں کرائے گئے ايک تازہ مطالعے کے مطابق جرمن رياستوں ميکلن برگ ويسٹرن پوميرانيا اور شلیسوگ ہولسٹائن کے سرحدی علاقوں ميں ان پرندوں کی تعداد موسم بہار ميں 205 سے موسم خزاں ميں 566 تک پہنچ گئی ہے۔ ان ميں سے تقريباً تين سو پرندوں کی پيدائش اسی سال ہوئی تھی۔ يہ امر اہم ہے کہ ’شالزے بايوسفيئر ريزرو‘ کے علاقے میں ان پرندوں کی آبادی ميں اضافہ روکنے سے متعلق کوششوں کے باوجود ان کی تعداد ميں يہ اضافہ نوٹ کيا گيا۔ تعداد ميں غير معمولی اضافے کی ايک وجہ اس سال موسم گرما ميں معمول سے زيادہ اور طويل مدت کے ليے بلند درجہ حرارت بھی بنا۔
يہ پرندے شطر مرغ کی طرح دکھائی ديتے ہيں۔ ان کی لمبائی ايک سو ستر سينٹی ميٹر تک پہنچ سکتی ہے اور وزن چاليس کلوگرام تک۔ مقامی کسان انہيں اس ليے ناپسند کرتے ہيں کيونکہ يہ پرندے ان کی فصليں تباہ کر سکتے ہيں۔ مقامی کسانوں کی يونين کا دعوی ہے کہ پرندوں کی وجہ سے سالانہ بنيادوں پر ہزارہا يورو کا نقصان ہوتا ہے۔ علاوہ ازيں کبھی کبھار يہ پرندے ’آٹو بان‘ يعنی موٹر وے يا ہائی ويز پر بھی آ جاتے ہيں، جس سے ٹريفک بھی متاثر ہوتی ہے۔
جرمن زرعی شعبے کو درپیش مشکلات
جرمن کسان ملکی منڈی میں اپنی مصنوعات کی کم قیمت کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں۔ ان کسانوں کو ماحول اور جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی تنقید بھی سننا پڑتی ہے۔ جرمنی میں زرعی شعبے میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Schulze
دودھ کی وافر پیداوار لیکن خریدار کم
یورپی یونین کی جانب سے دودھ کا کوٹہ ختم کیے جانے کے بعد سے دودھ کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں کے مابین ایک مقابلہ جاری ہے۔ گوالے نئی منڈیوں تک رسائی کی امید لگائے ہوئے ہیں۔ روس کے خلاف عائد پابندیاں اور چینی معیشت میں سست روی ان کے خواب پورا نہیں ہونے دے رہے۔ آج کل دودھ اور اس سے تیار کردہ مصنوعات کی رسد ان کی طلب سے زیادہ ہے۔ ااس صورتحال میں یورپی یونین کو گوالوں کی مالی مدد کرنا پڑ رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Büttner
وجود کو خطرہ
جرمنی میں کسانوں کی تنظیم ’ ڈی بی وی‘ کے صدر یوآخم رکوائڈ کے مطابق زرعی شعبے کا ایک بڑا حصہ اپنی بقا کے خطرے سے دوچار ہے۔ وہ کہتے ہیں 2003ء سے 2013ء کے دوران جرمنی میں مختلف فارموں یا کھیتوں میں 32 فیصد تک کی کمی ہوئی ہے۔ ان کے مطابق، ’’خاص طور پر چھوٹے پیمانے پر کھیتی باڑی کرنے والے کسان اقتصادی مسائل کا شکار ہیں۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Zucchi
ایک اہم آجر
جرمنی میں زرعی شعبے سے کوئی چھ لاکھ افراد منسلک ہیں۔ کسانوں کی تنظیم ’ڈی بی وی‘ کے مطابق یہ جرمنی کا ایک بہت اہم آجر شعبہ ہے۔ اس سلسلے میں رواں برس ہینوور میں ہونے والے کسانوں کے ملکی کنوینشن کا موٹو ہے، ’’مضبوط زراعت، اچھے مستقبل کی ضمانت۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Büttner
تصورات اور خیالات
سر سبز مرغزار، ان میں گھومتے ہوئے صحت مند مویشی اور دلکش کھیت۔ کسی بھی شخص سے اگر کھیتی باڑی کی بات کی جائے تو اس کے ذہن میں کچھ ایسی ہی تصویر بنتی ہے۔ 2013ء میں کرائے گئے ایک جائزے کے مطابق 80 فیصد جرمن شہری ملکی زراعت کو جرمنی اور جرمن روایات کا لازمی حصہ سمجھتے ہیں۔
زرعی شعبے میں کئی حقائق عمومی تصورات سے مختلف ہیں۔ مثلاﹰ آج کل زرعی شعبے میں بھی صنعتی پیمانے پر مصنوعات کی پیداوار دیکھنے میں آتی ہے۔ اس کے علاوہ کیڑے مار ادویات کے بے پناہ استعمال کی وجہ سےبھی عام کسانوں کی پیداواری مصنوعات کی مانگ کم ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters
کھیتی باڑی ماحول کے لیے نقصان دہ بھی
تحفظ ماحول کی تنظیموں کے مطابق کھیتی باڑی بھی ضرر رساں گیسوں کے اخراج کا سبب بنتی ہے۔ زمین کو نرم کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے کیمیکل سے’لافنگ گیس‘ پیدا ہوتی ہے اور یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بھی 300 گنا زیادہ نقصان دہ ہے۔ اس کے علاوہ جرمنی میں 43 لاکھ دودھ دینے والی گائیں میتھین گیس خارج کرتی ہیں۔ 2014ء میں جرمنی میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج کی دوسری سب سے بڑی وجہ ملکی زرعی شعبہ تھا۔
تصویر: picture alliance/F. May
گوشت کی مانگ میں اضافہ
جرمنی کو یورپ کا مذبحہ خانہ کہا جا سکتا ہے۔ جرمنی میں 2015ء کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران 30 ملین سؤر، 1.7 ملین گائیں اور 325 ملین مرغیاں گوشت کے لیے استعمال کی گئیں۔ اس کے علاوہ بھی لوگ چھپ کر جانوروں کو ذبح کرتے ہیں۔ پھر اس خدشے کے پیش نظر کہ جانور کہیں ایک دوسرے کو زخمی نہ کر دیں، خنزیروں اور گائیوں کی دمیں کاٹ دی جاتی ہیں جبکہ مرغیوں کے چوزوں کی چونچیں بھی آگے سے تراش دی جاتی ہیں۔
تصویر: Getty Images
یورپی یونین کی جانب سے اعانت
ابھی کچھ سال پہلے تک یورپی یونین کی جانب سے زرعی شعبے کے کارکنوں اور اداروں کو دی جانے والی مالی اعانتیں بےضبط انداز میں تقسیم کی جاتی تھیں۔ مثال کے طور پر جتنا بڑا کھیت یا فارم ہو گا،اتنی ہی زیادہ رقم ملے گی۔ اس پالیسی کی وجہ سے چھوٹے کاشتکار مسابقت کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
پالیسی میں تبدیلی
2014ء میں یورپی یونین نے اپنی زرعی پالیسی میں اصلاحات متعارف کرائیں۔ اب مالی اعانت کے حق دار صرف ماحول دوست کاشتکار قرار پاتے ہیں۔ اس طرح عام کسانوں نے کھیتی باڑی کے دوران کیمیائی مادوں کا استعمال کم کر دیا ہے اور مویشیوں کی دیکھ بھال کا طریقہ کار بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
بائیو مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مانگ
جرمنی میں گزشتہ دہائی کے دوران بائیو یا تحفظ ماحول کا خیال رکھتے ہوئے کی جانے والی کاشتکاری میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بائیو فارمز کی تعداد ان دس سالوں میں پہلے کے مقابلے میں ایک تہائی بڑھی ہے۔ جرمنی میں کل زرعی رقبے کا چھ فیصد حصہ بائیو فارمنگ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ آسٹریا میں یہ شرح بیس فیصد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Schulze
10 تصاویر1 | 10
جرمنی ميں سن 1990 کی دہائی کے اوائل ميں لوبيک کے نزديک ايک کسان نے اپنے فارم پر کئی ناياب پرندے رکھے ہوئے تھے۔ ليا نامی ان پرندوں کے چند جوڑے اس فارم سے فرار ہو نکلے اور پھر شالزے بايو اسفيئر ريزرو ميں انہوں نے اپنا گھر بنا ليا۔ وائلڈ لائف کے اہلکار آبادی کو کنٹرول ميں رکھنے کے ليے ان پرندوں کے انڈوں پر موم ڈالتے آئے ہيں تاکہ ان سے بچے نہ نکليں ليکن اب جيسے جيسے تعداد ميں اضافہ ہو رہا ہے، يہ کوششيں بے اثر ہوتی جا رہی ہيں۔
شمالی جرمنی ميں متاثرہ علاقے کے کسانوں کا مطالبہ ہے کہ انہيں نر پرندوں کے شکار کی اجازت دی جائے يا پھر حکومت زيادہ فعال مہم چلائے۔ تاہم چونکہ پرندوں کی يہ نسل جارحانہ تصور نہيں کی جاتی، اس کے شکار کی قانونی طور پر اجازت نہيں۔
جرمن دریاؤں اور جھیلوں میں پانی کی کمیابی
بارشوں کی کمی اور بڑھتا درجہ حرارت جرمنی کے دریاؤں اور ندیوں کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ ماہرین موسمیات کے مطابق سن 2018 حالیہ تاریخ میں خشک ترین سال ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
دریائے رائن
جرمنی کے تاریخی دریائے رائن میں پانی کی سطح ریکارڈ حد تک کم ہوگئی ہے۔ مغربی ریاست رائن لینڈ پلاٹینیٹ میں بہنے والے دریائے رائن کے حصے کو ’وسطی رائن‘ کہا کجاتا ہے اور یہ حصہ شدید متاثر ہے۔ جرمن محکمہء موسمیات کے مطابق جرمنی کے ستر فیصد حصے کو خشک سالی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Vennenbernd
دریائے ڈانیوب
خشک موسم کے باعث دریائے ڈانیوب میں بحری جہازوں کی آمد و رفت بہت حد تک محدود ہو گئی ہے۔ یورپ کے دوسرے سب سے لمبے دریا کا آغاز جنوب مغربی ریاست باڈن ورٹمبرگ سے ہوتا ہے اور مختلف ملکوں سے گزرتے ہوئے یہ رومانیہ اور یوکرائن کے درمیان بحیرہ اسود میں گرتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
دریائے ایلبے
پانی کی سطح میں کمی کے باعث جرمنی کی کئی ریاستوں سے گزرنے والا یہ دریا بھی متاثر ہوا ہے۔ اس دریا کا آغاز چیک ریپلک سے ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Vennemann
جھیل کانسٹانس
63 کلومیٹر طویل کانسٹانس ندی آسٹریا، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر واقع ہے۔ اس ندی میں پانی کی سطح اس قدر کم ہو گئی ہے کہ ایک نیا جزیرہ تشکیل پا گیا ہے۔ یہ ندی وسطی یورپ کی تیسری سب سے بڑی جھیل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Foto: Internationale Rheinregulierung
بگیسی جھیل
اس جھیل میں بھی پانی کی سطح کم ہو جانے سے بحری جہازوں کی آمد و رفت متاثر ہوئی ہے۔ جرمن ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں بگیسی جھیل میں چلنے والی جہازوں کو ایک دوسرے مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔