شمالی شام میں ترک فوج کے داخلے سے قبل امریکی فوجی انخلا شروع
7 اکتوبر 2019
امریکا نے شمال مشرقی شام میں ترک فوج کے داخلے سے پہلے وہاں تعینات اپنے فوجی دستے واپس بلانا شروع کر دیے ہیں۔ اس سے قبل وائٹ ہاؤس نے کہا تھا کہ امریکا اس شامی علاقے میں فوجی پیش قدمی میں ترکی کی حمایت نہیں کرنا چاہتا۔
اشتہار
امریکا میں واشنگٹن اور ترکی میں انقرہ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق شمال مشرقی شام سے امریکی فوجی انخلا آج پیر سات اکتوبر کو شروع ہو گیا۔ یہ ترکی اور شام کے درمیان سرحد کے قریب وہی شامی علاقہ ہے، جو کرد ملیشیا وائی پی جی کے کنٹرول میں ہے اور جہاں انقرہ حکومت اس ملیشیا کے ارکان کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہے۔
انقرہ حکومت کے مطابق کردوں کی یہ ملیشیا اسی کردستان ورکرز پارٹی یا پی کے کے کا عسکری بازو ہے، جسے ترکی نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اپنے ہاں ممنوع قرار دے رکھا ہے۔
اس سے پہلے امریکا میں وائٹ ہاؤس کی طرف سے یہ بھی کہہ دیا گہا تھا کہ واشنگٹن ترک شامی سرحد کے قریب اس علاقے میں ترک فوج کی مسلح کارروائیوں میں نہ تو کوئی عسکری مدد کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی ان کا حصہ بننا چاہتا ہے، اس لیے وہاں سے امریکی فوجی دستے واپس بلا لیے جائیں گے۔ شمال مشرقی شام سے امریکا کے اس فوجی انخلا سے قبل ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اپنے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلی فون پر بات چیت بھی کی تھی۔
'ترک فوجی مداخلت کسی بھی وقت‘
ادھر دمشق میں صدر بشارالاسد کی حکومت کی خلاف عسکری کارروائیوں میں مصروف اور کردوں کی سربراہی میں کام کرنے والی سیریئن ڈیموکریٹک فورسز یا ایس ڈی ایف کی طرف سے بھی آج پیر کے روز یہ تصدیق کر دی گئی کہ امریکی فوجی دستوں نے ترکی کے ساتھ سرحد کے قریب اس شامی علاقے سے اپنا انخلا شروع کر دیا ہے۔
شامی تنازعہ میں برسر پیکار قوتیں
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں سن 2011ء کے عرب اسپرنگ کے بعد شام میں خانہ جنگی کا جو سلسلہ شروع ہوا اس نے دنیا کے مختلف حریف گروہوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وقت شام میں کون سی قوتیں طاقت کی جنگ لڑ رہی ہیں؟
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
شام کے مسلح گروہ
شام کے بڑے علاقے پر مختلف باغی گروپوں اور صدر بشار الاسد کے درمیان کنٹرول کے حصول کی جنگ کے باعث ملک زبردست خانہ جنگی کا شکار ہے۔ اس تنازعہ میں اب تک کئی غیر ملکی طاقتیں شامل ہوچکی ہیں اور کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ڈکٹیٹر
شامی افواج جسے شامی عرب افواج ، ایس ایس اے، کے نام سے جانا جاتا ہے، ملکی صدر بشار الاسد کی وفا دار ہے اور پورے ملک پر بشار الاسد کی حکومت ایک بار پھر بحال کرنے کے لیے جنگ لڑ رہی ہے۔ اس جنگ میں ان کے ساتھ نیشنل ڈیفینس فورس جیسی ملیشیا ، روس اور ایران کے عسکری ماہرین کی مشاورت شامل ہے۔
ترکی اسلامک اسٹیٹ کے خلاف امریکی اتحاد کا حصہ ہے اور اس وقت شامی جنگ میں صدر بشار الاسد کے حریف باغیوں کے گروپ کی حمایت کر رہا ہے۔ ترکی جنوبی ادلب اور افرین صوبوں میں باغیوں کے ہمراہ کارروائیوں میں ساتھ دے چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Pitarakis
مشرقی محافظ
روس بشار الاسد کا طاقتور دوست ثابت ہو رہا ہے۔ ستمبر 2015 میں روسی فضائیہ اور زمینی افواج نے باقاعدہ طور پر شامی فوج کے شانہ بشانہ کارروائیوں میں حصہ لیا۔ روس کی اس خانہ جنگی میں شمالیت اب تک بشار الاسد کے حق میں ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tass/M. Metzel
مغربی اتحادی
امریکا نے 50 ممالک کے اتحادیوں کے ساتھ شام میں سن 2014ء سے اسلامک اسٹیٹ کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس وقت امریکا کے ایک ہزار سے زائد خصوصی دستے سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کی حمایت کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A.Brandon
مزاحمت کار
شامی کردوں اور اسلامک اسٹیٹ کے درمیان اختلافات جنگ کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ امریکی حمایت یافتہ اتحاد اسلامک اسٹیٹ کے خلاف سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کا ساتھ دے رہا ہے جو کرد اور عرب ملیشیا کا بھی اتحادی ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Sik
نئے جہادی
اسلامک اسٹیٹ نے خطے میں جاری افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عراق اور شام کے بڑے علاقوں پر سن 2014ء میں قبضہ جما لیا تھا اور وہاں خلافت قائم کرنا چاہی۔ تاہم اب روس اور امریکی فوجی مداخلت کے بعد ان کو دونوں ممالک میں شکست فاش ہوئی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
پرانے جہادی
اسلامک اسٹیٹ وہ واحدگروپ نہیں جو شام میں تباہی کا ذمہ دار ہے۔ اس تنازعہ میں الاسد حکومت اور باغیوں کے کئی گروہ شامل ہیں۔ ان میں ایک بنیادی تنظیم حیات التحریر الاشام بھی ہے جس کے القاعدہ کے ساتھ روابط ہیں اور جس نے صوبے ادلب کے بشتر حصے کا کنٹرول حاصل کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Nusra Front on Twitter
8 تصاویر1 | 8
ترک صدر ایردوآن نے بھی پیر سات اکتوبر کی صبح اس علاقے سے امریکی فوجوں کے انخلا کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس علاقے میں کردوں کی ملیشیا کے خلاف ترک فوجی آپریشن کسی بھی وقت شروع ہو سکتا ہے۔
ترک صدر ایردوآن نے کہا، ''اب ہم کسی بھی وقت بغیر کسی تنبیہ کے اس علاقے میں داخل ہو جائیں گے۔‘‘
اس بارے میں وائٹ ہاؤس کی طرف سے اتوار چھ اکتوبر کی رات کیے گئے ایک اعلان میں کہا گیا تھا، ''ترکی اب شمالی اور مشرقی شام میں فوجی مداخلت کی تیاری کر رہا ہے، اور ہم (امریکا) اس کی نہ تو حمایت کرتا ہے اور نہ ہی اس میں کسی بھی طرح شامل ہو گا۔‘‘
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری اسٹیفانی گریشم کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ''امریکی دستے اس علاقے میں 'اسلامک اسٹیٹ‘ (داعش) کی خلافت کو شکست سے دوچار کرنے کے بعد اب اس علاقے میں موجود نہیں رہیں گے۔ اب داعش کے ان تمام جنگجوؤں سے متعلق تمام تر ذمے داری بھی ترکی پر ہی عائد ہو گی، جو گزشتہ دو برسوں کے دوران اس علاقے سے گرفتار کیے گئے تھے۔‘‘
م م / ک م (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔