شمالی عراق کی خود مختار کرد حکومت اور مرکزی حکومت ميں تنازعہ
27 ستمبر 20121991 ميں امريکہ اور اُس کے اتحاديوں نے شمالی عراق ميں صدام حسين کی حکومت کے خلاف نو فلائی زون قائم کر ديا تھا۔ اس کے بعد سے اس علاقے ميں کردوں کو بڑی حد تک خود مختاری حاصل ہے۔ جب سے شمالی عراق ميں تيل کی پيداوار شروع ہوئی ہے، تب سے علاقے ميں اقتصادی ترقی زوروں پر ہے۔ اس ترقی کی مدد سے کردوں کو اپنی ايک خود مختار کرد رياست کا پرانا خواب بھی شرمندہء تعبير ہوتا دکھائی ديتا ہے۔
40 ملين کرد دنيا بھر ميں وہ سب سے بڑا قومی گروپ ہيں جس کی کوئی اپنی الگ رياست نہيں ہے۔ اُن کی آبادی عراق، ايران، شام اور ترکی ميں پھيلی ہوئی ہے۔ مغربی يورپ اور امريکہ ميں بھی بہت سے کرد آباد ہيں۔عراقی مرکزی حکومت کے سابق کرد وزير سربست پاميرنی يہ سمجھنے سے قاصر ہيں کہ کردوں کو پہلے کی طرح اب بھی کيوں اپنی الگ رياست سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ انہوں نے ڈوئچے ويلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا:
او۔ ٹون
’’يہ قوم ايک صدی سے بھی زيادہ عرصے سے آزادی، انصاف اور حق خود اختياری کے ليے لڑ رہی ہے۔‘‘ سربست نے کہا کہ آج شمالی عراق ميں کرد خود مختاری اس حد تک پختہ ہو چکی ہے کہ وہ ايک قانونی رياست کے تمام اہم اجزا، يعنی مقننہ، انتظاميہ اور عدليہ پر مشتمل ہے۔ ليکن اکثر کرد اسے کافی نہيں سمجھتے۔
ايک طاقتور معيشت سياسی خود مختاری کے مطالبے کو بھی تيز تر کر ديتی ہے۔ شمالی عراق کے کرد اکثريت والے علاقے ميں تعميراتی شعبہ تيزی سے ترقی کر رہا ہے، اقتصادی ڈھانچہ جديد بنايا جا رہا ہے اور تجارت عروج پر ہے۔ ليکن مرکزی حکومت سے تنازعہ اس بات پر ہے کہ کرد اب اپنے علاقے کے تيل کی پوری آمدنی خود اپنے پاس رکھنا چاہتے ہيں۔ سربست پاميرنی نے کہا کہ يہ تنازعہ عراق کی تقسيم کا سبب بن سکتا ہے۔
اگرچہ ترکی خود اپنے ملک ميں کرد خود مختاری کے حصول کی کوششوں کے مقابلے ميں کسی قسم کی نرمی سے کام نہيں لے رہا ہے ليکن شمالی عراق کے کرد علاقوں سے اُس کے اچھے اقتصادی تعلقات ہيں۔ وہ عراقی کرد علاقے کا سب سے بڑا اقتصادی اور تجارتی ساتھی ہے۔ ليکن ترکی کو خطرہ ہے کہ اس کے جنوب مشرق کے کرد بھی خود مختاری کا مطالبہ کر سکتے ہيں۔ انقرہ ترکی کی ریاستی وحدت کو قائم رکھنے کے ليے سرحد پار عراق ميں فوجی کارروائی تک کے ليے بھی تيار ہے۔
F. El-Auwad, sas / F. Taube, mm