1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی علاقہ جات میں ایووکیڈو کی کاشت کے کامیاب تجربات

20 مارچ 2022

ہل فروٹ سٹیشن مری اور ملحقہ علاقہ جات میں پاکستانی محقیقین نے مقامی باغبانوں کی مدد سے ایووکیڈو، چیسٹ نٹ اور ہیزل نٹ کی کاشت کے کامیاب تجربات کیے ہیں، جو باغبانوں کے لیے خاطر خواہ منافع کمانے کا سبب بن رہے ہیں۔

Pakistan | Landwirtschaft | Balakot KPK
تصویر: M. Afzal

پاکستان میں اگنے والے پھل اپنے لذیذ ذائقےاور اعلیٰ معیار کے باعث دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں۔ پاکستان کھجور، آم اور امرود وغیرہ کی بر آمدات سے کافی زرمبادلہ کماتا ہے۔ مگر چند انتہائی اہمیت کے حامل پھل جیسے ایووکیڈو، چیسٹ نٹ، ہیزل نٹ  وغیرہ ابھی تک پاکستان کی صنعتِ باغبانی میں زیادہ اہمیت حاصل نہیں کر سکے حالانکہ  پہاڑی علاقے خصوصاﹰ پاکستان کے شمالی علاقہ جات ان پھلوں کی پیداوار کے لیے انتہائی سازگار ہیں۔

پاکستان ہل فروٹ سٹیشن مری، بالاکوٹ اور ان سے ملحقہ علاقوں میں پچھلے ایک عشرے کے دوران ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث کچھ علاقوں کا موسم مرطوب ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر محمد افضل نے ہل فروٹ اسٹیشن مری پر دورانِ تحقیق ایووکیڈو کی کاشت کے تجربات کیے، جو ان کی توقع سے زیادہ کامیاب ثابت ہوئے۔ اس کے بعد وہاں چیسٹ نٹ، ہیزل نٹ اور دیگر پھلوں کی کاشت کا بھی آغاز کیا گیا ہے۔

ایووکیڈو اتنا اہم کیوں ہے؟

پاکستان میں ایووکیڈو، ہیزل نٹ اور چیسٹ نٹ کی کامیاب کاشت کرنے والے ماہر زراعت ڈاکٹر محمد افضل نے ایک نشست میں ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ ایووکیڈو ایک انتہائی مفید پھل ہے،''دنیا بھر میں اس کی سب سے زیادہ پیداوار امریکہ، میکسیکو اور برازیل میں ہو رہی ہے جبکہ معتدل موسم والے کئی دیگر ممالک جیسے جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ویسٹ انڈیز  وغیرہ میں بھی بتدریج ایووکیڈو کی کاشت کا رقبہ بڑھا رہے ہیں۔‘‘

تصویر: Fayaz Alam

مغربی ممالک میں ایووکیڈو روزانہ کی غذا خصوصاﹰ ناشتے کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس میں کئی اہم معدنیات، پروٹین، وٹامن اور چکنائی پائی جاتی ہے، جس کے باعث ماہر غذائیات اسے ڈائٹ فوڈ میں ضرور شامل کرتے ہیں۔

ایووکیڈو کی کاشت کیسے کی جاتی ہے؟

ڈاکٹر محمد افضل  نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ ایووکیڈو کو کاشت کرنے کا آسان ترین طریقہ اس کے  بیج ہیں مگر  تخمی پودے اچھی نسل کے نہیں ہوتے۔ لہذا ان کی درست افزائش کے لیے پیوندکاری کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے بعض سائنسدان  کہتے ہیں کہ اگر اس کے بیج کا چھلکا اتار دیا جائے تو اس کی پیداوار بڑھائی جا سکتی ہے۔

ڈاکٹر محمد افضل کے مطابق پاکستان کا وسیع علاقہ خصوصاﹰ شمالی علاقہ جات اس کی کاشت کے لیے انتہائی موزوں ہیں، جہاں آب و ہوا مرطوب ہے۔ اگرچہ یہ ایک سخت جان پھل ہے مگر ابتدائی برسوں میں پودوں کو سردی، گرمی اور کورے سے بچانا ضروری ہوتا ہے۔

ڈاکٹر افضل  نے پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کاؤنسل کے ساتھ  مل کر مری، بالا کوٹ،  لوئر ٹوپہ اور دیگر ہل سٹیشنز کے بعد پنجاب میں سرگودھا تک ان پھلوں کی کاشت کے کامیاب تجربات کیے ہیں۔ کسان مری ہل فروٹ سٹیشن  سے یہ پودے باآسانی حاصل کر سکتے ہیں، جہاں ان کی کاشت کے حوالے سے انہیں مکمل  راہنمائی بھی فراہم کی جاتی ہے۔

تصویر: Fayaz Alam

ڈاکٹر افضل کے مطابق مقامی کاشت کار ان پھلوں کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں ۔  اگر صرف ترکی کی بات کریں تو  گذشتہ  برس  32 ممالک کو  چیسٹ نٹ  بر آمد  کر کے ترکی نے تقریبا  43 ملین ڈالر کا زر مبادلہ  حاصل کیا ہے  ۔ مری سمیت دیگر پہاڑی علاقوں میں ہارس نٹ عام اگتے ہیں۔ اگرچہ یہ کھانے کے لائق نہیں ہوتے مگر مقامی افراد  کو علم  ہی نہیں ہے  کہ جن علاقوں میں ہارس نٹ اگتے ہیں وہاں چیسٹ نٹ بھی باآسانی  کاشت کیا  جا سکتا  ہے ۔  ہم اس حوالے سے آگاہی پھیلانے کے لئے مسلسل کوشاں ہیں۔

ڈاکٹر محمد افضل کے مطابق چیسٹ نٹ کی کاشت کا پہلا تجربہ 2007 ء میں محکمۂ جنگلات کے ایک افسر اعجاز قادر  نے کیا تھا، جنہیں اس کے چند پودے ہالینڈ سے تحفے میں ملے تھے۔ اعجاز قادر نے شنکیاری میں واقع زرعی تحقیقاتی مرکز میں ان پودوں کو لگوایا اور چند ہی سال میں ان پودوں پر پھل لگ گئے۔ چیسٹ نٹ ایک انتہائی مقوی  خشک میوہ ہے، جس کی پاکستان  میں کاشت محدود ہونے کے باعث قیمت ابھی کافی زیادہ  ہے۔

اس تجرباتی کاشت کی ملکی معیشت میں اہمیت کیا ہے؟

فیاض عالم معروف سماجی کارکن اور دعا فاؤنڈیشن کے سر براہ ہیں، جو تھر میں پانی کی سپلائی کے منصوبوں کے علاوہ وہاں متعدد پھلوں اور سبزیوں کی کاشت کے تجربات کر چکے ہیں۔ فیاض عالم نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت بلین ٹری سونامی پراجیکٹ پر ایک عرصے سے کام کر رہی ہے جبکہ 2014ء میں خیبر پختونخوا میں بھی یہ لوگ ایک ایسے منصوبے پر کام کر چکے ہیں۔

مگر دیکھا جائے تو یہ محض ماحول کی بہتری  سے متعلق ہیں۔ اگر  یہی پودے مناسب تحقیق اور منصوبہ بندی کے ساتھ لگائے جائیں کہ کون سا علاقہ کس طرح کے پودوں یا پھلوں، سبزیوں وغیرہ کی کاشت کے لیے موزوں ہے تو اس سےنا صرف مقامی افراد کی معاشی حالت بہتر ہو گی بلکہ پاکستان ان کی برآمدات سےکئی کروڑ ڈالر زر مبادلہ حاصل  کر سکتا ہے۔

فیاض عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کچھ برس قبل بھوٹان میں امریکہ سے آئے ایک سیاح جوڑے نے مقامی کسانوں  کو  ہیزل نٹ کے کچھ پودے د یے اور ساتھ ان کی کاشت کا طریقہ بتایا تھا۔ آج وہاں ہزاروں کسان اس منافع بخش میوے کی کاشت سے وابستہ ہیں اور بھوٹان کی معیشت بھی پہلے سے کافی بہتر ہوئی ہے۔

فیاض عالم کہتے ہیں کہ عمران خان اگر اپنے  بلین ٹری سونامی منصوبے میں زرعی ماہرین اور تحقیقاتی اداروں کو شامل کریں، جو  مقامی افراد کو اس حوالے سے راہنمائی دیں کہ کس علاقے میں کیسے پودے کاشت کرنے ہیں تو اس منصوبے  کی افادیت بہت بڑھ جائے گی۔

فیاض عالم کے مطابق ان کا ماننا ہے کہ اگر صرف ایووکیڈو، ہیزل نٹ، پیکان نٹ اور چیسٹ نٹ کو ہی 2014ء سے جاری اس منصوبے میں شامل کر لیا جاتا تو اب تک پاکستان کی برآمدات میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہوتا مگر مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں اچھے منصوبے مناسب پلاننگ کے بغیر شروع کر دیے جاتے ہیں اور بیوروکریسی کے ہاتھوں چڑھ کر وہ افادیت کھو بیٹھتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں