ایک وقت تھا کہ شمالی قبرص کا ساحلی علاقہ وروشا معروف شخصیات کی چہل پہل سے معمور ہوا کرتا تھا لیکن برسوں سے بند ہونے کے سبب اب یہ بھوتوں کا شہر لگتا ہے۔
اشتہار
ترکی نے اپنے زیر اثر شمالی قبرص کے ساحلی علاقے وروشا کو جمعرات سے کھول دیا ہے تاہم اس فیصلے پر مقامی اور بین الاقوامی سطح پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ شمالی قبرص میں انتخابات سے عین قبل اس ساحل سمندر کو کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ قبرص شمالی اور جنوبی دو حصوں میں تقسیم ہے اور اس علاقے کے تعلق سے ترکی اور جنوبی قبرص کے درمیان برسوں سے تنازع رہا ہے۔
جنوبی قبرص والے علاقے کے صدر نکوس انیستیسیادست کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ تمام عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرار دادوں کی صریحاًخلاف ورزی ہے۔ قبرص کے قریبی حلیف یونان نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو یورپی یونین کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔
کھوئی ہوئی زمین
سن 1974میں جب ترکی نے قبرص پر حملہ کیا تھا اسی وقت سے وروشا کا ساحلی شہر ویران پڑا ہے۔ یہ جزیرہ اسی وقت نسلی بنیادوں پر تقسیم ہوگیا تھا۔ حملے کے چار برس قبل تک اس کا ساحل چہل پہل سے آباد رہتا تھا لیکن آج تناور درختوں اور بلند عمارتوں والے ساحل سمندر کا یہ علاقہ بھوتوں کا شہر دکھائی دیتا ہے۔
ترکی کے اثر و رسوخ والے قبرص کے لوگوں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ جنوبی خطے کے لوگوں نے اس کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا۔ ماضی میں اسی علاقے کے رہنے والے جنوبی قبرص کے ایک شخص کریا کوس کا کہنا تھا کہ ''گر چہ مجھے اس کی توقع تھی تاہم اس مانوس مقام کو دیکھتے ہوئے مجھے حیرت بھی ہوئی۔ یہ ایک ایسا دکھ ہے جس کا کوئی مداوا نہیں ہوسکتا۔ وروشا پوری طرح سے کھو چکا ہے۔''
علاقے پر ترک قبرص فوجیوں کا کنٹرول ہے اور اس علاقے میں انتخابات سے محض چند روز پہلے اسے کھولا گیا ہے۔ ان انتخابات میں کامیاب ہونے والا رہنما ہی اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والی امن بات چیت میں خطے کی نمائندگی کرے گا۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اسے کھولنے سے وزیر اعظم ارسن تاتار کو انتخابات میں فائدہ ہوسکتا ہے جنہوں نے ترک صدر طیب اردوان سے صلاح و مشورے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے۔
لیکن یہاں کے دوسرے رہنما اکنچی نے اس فیصلے پر یہ کہہ کر نکتہ چینی کی ہے کہ اس کا مقصد ایک خاص امیدوار کے حق میں فضا کو ہموار کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ''خطے کے لوگ عالمی سطح پر مزید مشکل صورت حال میں پھنس سکتے ہیں۔''
اکنچی کے تعلقات ترکی سے اچھے نہیں ہیں تاہم عالمی سطح پر ان کے روابط بہتر ہیں اور ان کی گرفت بھی مضبوط ہے۔ گرچہ شمالی قبرص کا شمار ترکی کے ایک صوبے کے طور پر ہوتا ہے تاہم کسی حد تک یہ خود مختار علاقہ ہے۔ بحیرہ روم میں واقع اس جزیرے کی سن 1974 میں تقسیم کے بعد ترکی نے اسی ہفتے اسے کھولنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن متنازعہ خطے کے سبب یورپی یونین اور ترکی میں اس حوالے سے ایک بار پھر رسہ کشی
کاخدشہ ہے۔
ص ز / ج ا (اے پی، اے ایف پی)
مشہور ڈرامہ سیریل ’ارطغرل غازی‘ کے دیس میں
پاکستان میں آج کل ہر سو ترک ڈرامه سیریل ارطغرل غازی کا ڈنکا بج رہا ہے۔ اردو ڈبنگ کے ساتھ نشر کیے جانے والا یہ تاریخی ڈرامہ پانچ سیزن پر مشتمل ہے۔ اس ڈرامے کا مرکزی کردار قبائلی سردار ارطغرل غازی ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
ارطغرل غازی کا مقبرہ
ترکی کے شہر استبنول سے تقریبا تین گھنٹے کی مسافت پر بیلیچک صوبے میں سوعوت کا قصبه واقع ہے۔ مقامی پہاڑی سلسلے کے خم دار اور پرپیچ راستوں پر واقع یہ چھوٹا سا قصبہ اپنے دامن میں صدیوں کی تاریخ سموئے ہوئے ہے۔ اس کی ایک نشانی یہاں قائم سلطنت عثمانیہ کی داغ بیل ڈالنے والے کائی قبیلے کے سردار ارطغرل غازی (1188-1281) کا مقبرہ ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
ڈرامه سیریل ارطغرل غازی
ڈرامه سیریل ارطغرل غازی کا مرکزی خیال سلطنت عثمانیہ کے قیام میں سے قبل بارهویں اور تیرھویں صدی عیسوی کے ان حالات پر مبنی ہے جو آگے چل کر سلطنت عثمانیہ کے قیام کا سبب بنے۔
تصویر: DW/S. Raheem
ارطغرل کا احیا
چودہ ہزر نفوس پر مشتمل پر یہ قصبہ تقریبا دو سال قبل تک تقریباﹰ گمنامی کا شکار تھا اور شاذونادر ہی کسی سیاح کی اس طرف آمد ہوتی تھی۔ لیکن پھرپانچ سال قبل ترکی کے سرکاری ٹی وی ٹی آرٹی کی پیشکش ڈرامہ سیریل ’’ارطغرل کا احیا‘‘ نے اس قصبے کو گمنامی سے نکال کر ایک مرتبہ پھر دنیا کی نظروں میں لا کھڑا کیا ہے
تصویر: DW/S. Raheem
روایتی لباس میں حفاظت
مقبرے کے باہر مقامی کائی قبیلے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی چاق و چوبند ٹولیاں اپنے صدیوں پرانے روایتی لباس میں ملبوس اور ہتھیاروں سے لیس ہو کر حفاظتی ڈیوٹیاں سر انجام دیتی ہیں۔ انہیں دیکھنے والے ایک لمحے کے لیے وقت کی قید سے آزاد ہو کر خود کو آٹھ صدیوں قبل کے ماحول میں پاتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
خاک بھی موجود
ارطغرل کی قبر کے پہلو میں سلطنت عثمانیہ کے زیر اثر رہنے والے تمام ممالک سے لائی گئی خاک کو بڑی ترتیب کے ساتھ چھوٹی چھوٹی ڈبیاوں میں سجا کر رکھا گیا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
پرچم بھی نصب
اس کے علاوہ اس مزار میں ان ممالک کے پرچم بھی ایستادہ کیے گئے ہیں، جن میں ترک زبان بولنے والے ایک بڑی تعداد میں آباد ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
پاکستانی سیاح
مقامی انتظامیہ کے ایک اہلکار کے مطابق مشرق وسطی، افریقہ اور ایشیائی ممالک خصوصاﹰ پاکستان سے سیاح گزشتہ دو سالوں سے تواتر کے ساتھ سوعوت کے قصبے کا رخ کر رہے ہیں۔ ان کے لیے یہاں سبب سے بڑی کشش بلاشبہ ارطغرل غازی کا مقبرہ ہے۔ یہ سن 1886 تک ایک عام قبر کی طرح ہی تھا لیکن پھر اسے عثمانی سلطان عبدالحمید دوئم نے ایک مقبرے کی شکل دی۔
تصویر: DW/S. Raheem
مقامی انداز میں تصاویر
یہ منظر بھی یہاں آئے سیاحوں کی اس مقام سے جڑی توقعات پوری کرنے میں بھر پور مدد کرتا ہے۔ ان کے اندر شوقین افراد کے لئے مقامی انداز میں ڈھل کر فوٹو کھچوانے کی سہولت بھی مہیا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
ارطغرل سب سے بڑی وجہ
یہاں آنے والے سیاحوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ ان کے سوعوت سے تعارف کی وجہ ڈرامہ سیریل ارطغرل کے علاوہ کچھ نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ارطغرل کے عکس بندی اور خصوصاﹰ اس میں دکھائے گئے کائی قبیلے کی بودوباش اور رہن سہن کے طریقوں سے اتنے محصور ہوئے کہ انہوں نے سوعوت آنے کی ٹھان لی۔
تصویر: DW/S. Raheem
خیمے توجہ کا مرکز
یہاں کاروبار کرنے والوں نے گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے کائی قبیلے کے زیر استعمال صدیوں پرانے خیموں کو بھی ایک مرتبہ پھر آباد کر رکھا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
کورونا کا سیاحت پر اثر
مقامی منتظمین کا کہنا ہے کہ دو سال قبل یہاں آنے والے سیاحوں کی ماہانہ تعداد چار سے پانچ سو کے درمیان تھی تاہم کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے قبل یہ تعداد بڑھ کر چار ہزار ماہانہ تک جا پہنچی تھی۔ تاہم اب جہاں کورونا وائرس نے دنیا بھر میں سیاحت کی صنعت کو متاثر کیا ہے وہیں ترکی میں بھی اس صنعت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
یادگاری اشیا
اس قصبے میں اب یادگاری اشیا کی دوکانیں یا سوئینیر شاپس بھی تیزی سے اپنا کاروبار جما رہی ہیں۔ ان دوکانوں پر آپ کو چمڑے سے تیار کیے گئے کائی قبیلے کے روایتی لباس، روزمرہ استعمال کی دیگر اشیا کے ساتھ ساتھ ہتھیار اور خواتین کے پہناوے اور جیولری کا سامان دستیاب ہوتا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
کائی قبیلے کا پرچم
دو تیروں اور ایک کمان پر مشتمل کائی قبیلے کا پرچم آپ کو یہاں جگہ جگہ لہراتا نظر آتا ہے۔ اکثر یادگاری اشیا جیسے کہ مختلف قسم کی ٹوپیوں، ٹی شرٹس اور کی چین وغیرہ پر بھی آپ کو یہ نشان بنا ہوا ضرور نظر آئے گا۔
تصویر: DW/S. Raheem
اہلیہ بھی احاطے میں دفن
ارطغرل کے مزار کے احاطے میں ان کی اہلیہ حلیمہ خاتون، دوسرے بیٹے سیوجی بے کے علاوہ چودہ دیگر قریبی رفقا کا کی قبریں بھی ہیں۔ ان کی اہلیہ حلیمہ خاتون کو ارطغرل ڈرامے میں ایک موثر کردار میں پیش کیا گیا ہے، جو ہر مشکل اور فیصلہ کن گھڑی میں اپنے خاوند کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں۔