1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی قبرص میں ’بھوتوں کا شہر‘ کھولنے پر تشویش

9 اکتوبر 2020

ایک وقت تھا کہ شمالی قبرص کا ساحلی علاقہ وروشا معروف شخصیات کی چہل پہل سے معمور ہوا کرتا تھا لیکن برسوں سے بند ہونے کے سبب اب یہ بھوتوں کا شہر لگتا ہے۔


Türkei/Zyprern I Strand in Varosha
تصویر: Nedim Enginsoy/AP/picture-alliance

ترکی نے اپنے زیر اثر شمالی قبرص کے ساحلی علاقے وروشا کو جمعرات سے کھول دیا ہے تاہم اس فیصلے پر مقامی اور بین الاقوامی سطح پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ شمالی قبرص میں انتخابات سے عین قبل اس ساحل سمندر کو کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ قبرص شمالی اور جنوبی دو حصوں میں تقسیم ہے اور اس علاقے کے تعلق سے ترکی اور جنوبی قبرص کے درمیان برسوں سے تنازع رہا ہے۔

جنوبی قبرص والے علاقے کے صدر نکوس انیستیسیادست کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ تمام عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرار دادوں کی صریحاًخلاف ورزی ہے۔ قبرص کے قریبی حلیف یونان نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو یورپی یونین کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔

کھوئی ہوئی زمین

سن 1974میں جب ترکی نے قبرص پر حملہ کیا تھا اسی وقت سے وروشا کا ساحلی شہر ویران پڑا ہے۔  یہ جزیرہ اسی وقت نسلی بنیادوں پر تقسیم ہوگیا تھا۔ حملے کے چار برس قبل تک اس کا ساحل چہل پہل سے آباد رہتا تھا لیکن آج تناور درختوں اور بلند عمارتوں والے ساحل سمندر کا یہ علاقہ بھوتوں کا شہر دکھائی دیتا ہے۔

تصویر: Nedim Enginsoy/AP/picture-alliance

ترکی کے اثر و رسوخ والے قبرص کے لوگوں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ جنوبی خطے کے لوگوں نے اس کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا۔ ماضی میں اسی علاقے کے رہنے والے جنوبی قبرص کے ایک شخص کریا کوس کا کہنا تھا کہ ''گر چہ مجھے اس کی توقع تھی تاہم اس مانوس مقام کو دیکھتے ہوئے مجھے حیرت بھی ہوئی۔ یہ ایک ایسا دکھ ہے جس کا کوئی مداوا نہیں ہوسکتا۔ وروشا پوری طرح سے کھو چکا ہے۔''

علاقے پر ترک قبرص فوجیوں کا کنٹرول ہے اور اس علاقے میں انتخابات سے محض چند روز پہلے اسے کھولا گیا ہے۔ ان انتخابات میں کامیاب ہونے والا رہنما ہی اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والی امن بات چیت میں خطے کی نمائندگی کرے گا۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اسے کھولنے سے وزیر اعظم ارسن تاتار کو انتخابات میں فائدہ ہوسکتا ہے جنہوں نے ترک صدر طیب اردوان سے صلاح و مشورے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے۔ 

تصویر: Petros Karadjias/AP/picture-alliance

لیکن یہاں کے دوسرے رہنما اکنچی نے اس فیصلے پر یہ کہہ کر نکتہ چینی کی ہے کہ اس کا مقصد ایک خاص امیدوار کے حق میں فضا کو ہموار کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ''خطے کے لوگ عالمی سطح پر مزید مشکل صورت حال میں پھنس سکتے ہیں۔''

اکنچی کے تعلقات ترکی سے اچھے نہیں ہیں تاہم عالمی سطح پر ان کے روابط بہتر ہیں اور ان کی گرفت بھی مضبوط ہے۔ گرچہ شمالی قبرص کا شمار ترکی کے ایک صوبے کے طور پر ہوتا ہے تاہم کسی حد تک یہ خود مختار علاقہ ہے۔ بحیرہ روم میں واقع اس جزیرے کی سن 1974 میں تقسیم کے بعد ترکی نے اسی ہفتے اسے کھولنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن متنازعہ خطے کے سبب یورپی یونین اور ترکی میں اس حوالے سے ایک بار پھر رسہ کشی

 کاخدشہ ہے۔

ص ز / ج ا (اے پی، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں