1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی میانمار میں تشدد، ہزاروں شہری چین فرار

22 نومبر 2016

شمالی میانمار میں جاری تشدد کی وجہ سے تقریبا تین ہزار افراد چین فرار ہو گئے ہیں۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ وہ جان بچانے کی غرض سے چین داخل ہوئے ہیں۔ چینی حکومت ان پناہ گزینوں کو فوری مدد فراہم کر رہی ہے۔

Rohingya Flüchtlinge Myanmar Bangladesch
تصویر: Reuters/M.P.Hossain

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بائیس نومبر بروز منگل چینی حکومت کے حوالے سے بتایا ہے کہ میانمار کے کم ازکم تین ہزار شہری پناہ حاصل کرنے کی خاطر چین پہنچ چکے ہیں۔ چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق میانمار سے متصل ملکی سرحد پر سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے کیونکہ شمالی میانمار میں جاری جھڑپوں کے دوران ایک شیل چینی سرزمین پر بھی آ گرا، جس کے باعث ایک چینی شہری زخمی ہو گیا ہے۔

باغیوں سے مذاکرات، سوچی کی امن معاہدے کی کوشش
فائر بندی کے باوجود حکومتی آپریشن جاری، کاچین باغیوں کا دعویٰ
میانمار میں باغیوں پر فضائی حملے اور بان کی مون کی تشویش

شمالی میانمار میں فوج اور باغیوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ تازہ اطلاعات کے مطابق اس تشدد کے نتیجے میں کم از کم نو افراد ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔

چینی سرحد سے ملحقہ میانمار کے صوبے شان میں ملکی فوج چار مختلف باغی گروہوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان تازہ جھڑپوں کو آنگ سان سوچی کی طرف سے ملک میں باغیوں کے ساتھ جامع امن ڈیل کی کوششوں کے لیے ایک دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے منگل کے دن پریس بریفنگ میں بتایا کہ شمالی میانمار میں شورش کی وجہ سے پہلے بھی کئی ہزار میانمار کے شہری چین آ چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ’’جنگ زدہ صورتحال سے بچنے کی خاطر مزید تین ہزار افراد آج چین داخل ہوئے ہیں۔‘‘

چینی میڈیا کے مطابق بیجنگ حکومت انسانی ہمدردی کی بنیاد پر میانمار کے شہریوں کو فوری مدد فراہم کر رہی ہے بلکہ زخمیوں کا علاج بھی کیا جا رہا ہے۔

میانمار کے صوبے شان میں ملکی فوج چار مختلف باغی گروہوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے ہوئے ہےتصویر: AP

شمالی میانمار میں چین سے متصل ایک دیہات میں موجود اے ایف پی کے نامہ نگار نے بتایا ہے کہ شورش کی وجہ سے لوگ گھروں سے باہر نکلنے سے اجتناب کر رہے ہیں۔

میانمار کی حکمران پارٹی کی سربراہ آنگ سان سوچی کی کوشش ہے کہ ملک میں فعال باغیوں کے ساتھ ایک امن ڈیل طے پا جائے، جس کی خاطر وہ باغی رہنماؤں سے مذاکرات بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

تاہم کاچین اور شان نامی ریاستوں کے علاوہ کارن کے جنوبی علاقوں میں سکیورٹی کی صورتحال خراب ہے۔ ناقدین کے مطابق ان علاقوں میں کسی سیز فائر کے نفاذ میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں