دو لڑکيوں کا غيرت کے نام پر قتل، ملزمان کا اعتراف جرم
فریداللہ خان، پشاور
20 مئی 2020
پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا کی پولیس کے مطابق شمالی وزیرستان میں غیرت کے نام پر قتل کی گئی لڑکیوں کے کیس میں مرکزی ملزم نے عدالت میں اپنے جرم کا اعتراف کر ليا ہے۔ لڑکيوں کو ايک ويڈيو وائرل ہونے کے بعد قتل کيا گيا۔
اشتہار
اعترافی بیان میں ملزم نے قبول کیا ہے کہ اس نے ویڈیو بنانے کے ليے اپنے دوست کا موبائل فون استعمال کیا تھا۔ اس دوست کو پولیس پہلے ہی گرفتار کر چکی ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ مقامی پولیس کے ليے ايسے حساس علاقے میں اس طرح کے کیس سے نمٹنا، انتہائی مشکل کام ہے۔ علاقے کے افراد اور متعلقہ خاندان کے ارکان، کوئی بھی پولیس میں رپورٹ کرانے کے ليے تیار نہیں تھا۔
ڈوئچے ویلے اردو نے اس سلسلے میں شمالی وزیرستانميں تعينات پولیس افسر شفیع اللہ گنڈاپور سے رابطہ کیا، تو انہوں نے بتایا، ''غیرت کے نام پر قتل کے اس کیس ميں ملوث پانچ ملزمان میں چار کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ زير حراست ملزمان میں ویڈیو کلپ بنانے والا اور استعمال ہونے والے فون کا مالک بھی شامل ہے۔ ملزمان کو بدھ کے روز عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں انہوں نے تسلیم کیا کہ ویڈیو انہوں نے بنائی تھی اور انہیں بعد میں معلوم ہوا کہ ان لڑکیوں کو قتل کر ديا گیا۔‘‘
گنڈاپور کا مزید کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان میں اس نوعیت کے حساس کیسز سے نمٹنا آسان نہیں ہوتا۔ اسی ليے انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا نے ان کی سربراہی میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم بنائی ہے، جس نے بہت کم وقت میں ملزمان تک پہنچنے ميں کامیابی حاصل کی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان جیسے علاقے میں اس طرح کے کیسز کا حل نکالنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
خواتین کا عالمی دن: ایشیائی ممالک میں صنفی مساوات
گزشتہ چند برسوں میں صنفی مساوات کی صورتحال بہتر ہونے کے باوجود آج بھی ایشیائی خواتین اور لڑکیوں کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈی ڈبلیو نے ایشین ممالک میں خواتین کے حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیا۔
تصویر: NDR
افغانستان
افغانستان میں امریکا کے زیر سربراہی بین الاقوامی فوجی اتحاد نے سن 2001 میں طالبان حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا، جس کے بعد سے ملک میں خواتین کے حقوق کی صورتحال نے ایک نیا موڑ لیا۔ تاہم موجودہ افغان حکومت میں طالبان کی ممکنہ نمائندگی کا مطلب ہے کہ خواتین ایک مرتبہ پھر تعلیم اور روزگار جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہو جائیں گی۔
تصویر: Getty Images/R. Conway
ایران
ایرانی خواتین کی ایک فٹ بال ٹیم تو بن چکی ہے لیکن وہاں آزادی اور خودمختاری کی لڑائی آج بھی جاری ہے۔ ایرانی وکیل نسرین سوتودیہ کو پانچ برس قید کی سزا سنائی گئی کیونکہ وہ اسکارف کی پابندی کے خلاف مظاہرہ کرنے والی خواتین کا دفاع کر رہیں تھیں۔
تصویر: Pana.ir
پاکستان
یہ پاکستان کی پہلی کار مکینک عظمٰی نواز (درمیان میں) کی تصویر ہے۔ یہ جنوبی ایشیائی ملک خواتین کی آزادی کے راستے پر گامزن ہے۔ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کراچی میں خواتین ’عورت آزادی مارچ‘
#AuratAzadiMarch میں شرکت کر رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S.S. Mirza
بھارت
بھارت میں ’خواتین بائیکرز‘ کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایسے مثبت اقدام کے باوجود خواتین جنسی تشدد اور ریپ کا نشانہ بنتی ہیں۔ گزشتہ برس، بھارت میں متعدد خواتین نے اپنے حقوق کے دفاع کے لیے آواز بلند کی۔ #MeToo مہم کے ذریعے متاثرہ خواتین معاشرے کے طاقتور مردوں کے خلاف سراپا احتجاج تھیں۔
تصویر: Imago/Hindustan Times
انڈونیشیا
انڈونیشی خواتین ملکی ترقی کا اہم حصہ ہیں لیکن ان کو قدامت پسند مذہبی قوانین کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر آچے صوبے میں شرعی قوانین نافذ کیے جانے کے بعد خواتین کو اسکارف پہننے پر مجبور کیا گیا اور خواتین کا نا محرم مردوں سے بات چیت کرنا ممنوع قرار دیا گیا۔
تصویر: Imago/C. Ditsch
سری لنکا
سری لنکا میں صنفی مساوات کی صوتحال قدراﹰ بہتر ہے۔ سری لنکن خواتین تعلیم اور روزگار کا انتخاب خود کر سکتی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں سری لنکا شاید واحد ایسا ملک ہے، جہاں خواتین کو صحت اور تعلیمی سہولیات تک بھرپور رسائی حاصل ہے۔
تصویر: Imago/Photothek
بنگلہ دیش
بنگلہ دیشی عوام دو دہائیوں سے زائد عرصے سے ایک خاتون کا بطور وزیراعظم انتخاب کر رہے ہیں۔ ان کے دور حکومت میں خواتین کے حقوق میں واضح بہتری پیدا ہوئی ہے۔ تاہم روزگار کی منڈی میں خواتین کی نمائندگی ابھی بھی کم ہے اور صحت و تعلیم تک محدود رسائی ہے۔
تصویر: DW/M. M. Rahman
چین
چینی خواتین کو بلاشبہ ملک کی تیز معاشی ترقی سے فائدہ حاصل ہوا ہے لیکن ان کو سماج میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ آج بھی بچیوں کی پیدائش کے حوالے سے سماجی تعصب موجود ہے۔ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں تعلیم تک محدود رسائی فراہم کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eisele
8 تصاویر1 | 8
پندرہ مئی کو پولیس کی مدعیت میں درج کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سولہ اور اٹھارہ برس کی دو لڑکیوں کو قریبی رشتہ داروں نے غیرت کے نام پر قتل کر ديا۔ چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی، جس میں شمالی وزیرستان کے علاقے گڑیوام سے تعلق رکھنے والی تین لڑکیاں اور ایک لڑکا، قابل اعتراض حرکات کرتے ہوئے دکھائی ديے۔ پولیس کے مطابق اس ویڈیو کے عام ہونے کے بعد دو لڑکیوں کو قتل کر دیا گیا۔
وزیرستان کی قدامت پسند قبائلی روایات میں اس طرح کی حرکات کو ناقابل برداشت تصور کیا جاتا ہے۔ شورش زدہ علاقے شمالی وزیرستان میں غیرت کے نام پر قتل کا یہ پہلا واقعہ ہے، جس میں پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے گرفتاریاں کی ہیں۔ انتہائی حساس نوعیت کے اس معاملے کی درست تحقیقات کے ليے صوبائی پولیس سربراہ نے تحقیقاتی ٹیم کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے اس حوالے سے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ توقع ہے کہ تیسری لڑکی کو تحفظ فراہم کیا جائے گا اور ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔
زندہ جلائی گئی طالبہ کا اہل خانہ، انصاف کے لیے منتظر