1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی وزیرستان اور آپریشن ضربِ عضب

عابد حسین17 جون 2014

پاکستانی فوج نے اتوار کے روز شمالی وزیرستان کے قبائلی علاقے میں ایک جامع فوجی آپریشن ’’ ضربِ عضب ‘‘ شروع کر دیا ہے۔ زمینی فوج کو پاکستانی ایئر فورس کے جنگی طیاروں کی مدد بھی حاصل ہے۔

تصویر: picture-alliance/AP

شمالی وزیرستان میں انتہا پسند جنگجوؤں کے خلاف پاکستانی فوج کے شروع کیے گئے آپریشن کے دوسرے دن بھی جنگی طیاروں نے اہداف کو نشانہ بنایا۔ فوج کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی جاری رکھی جائے گی۔ زمینی فوج کی پیش قدمی بارے میں کوئی تفصیل جاری نہیں کی گئی۔

پاکستانی فوج کا آپریشن ضربِ عضب اتوار سے شروع ہےتصویر: A Majeed/AFP/Getty Images

پیر کے روز جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان کے درمیانی علاقے میں قائم عسکریت پسندوں کے چھ مختلف ٹھکانوں کو جنگی طیاروں نے نشانہ بنایا۔ فوج کے مطابق پیر کی صبح میں ہونے والے فضائی حملوں میں کم از کم 27 مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ فوج کے مطابق مزید چودہ عسکریت پسند دوسری جھڑپوں میں ہلاک ہوئے۔ اسی طرح شمالی وزیرستان کے مرکزی شہر میران شاہ کے قریب سڑک کنارے بم نصب کرنے والے تین عسکریت پسندوں کو بھی گولی مار کر ہلاک کرنے کا بتایا گیا ہے۔ فوج کے مطابق اتوار اور پیر کے دو دنوں میں 200 کے قریب عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔ اسی طرح کم از کم آٹھ فوجیوں کی ہلاکت کا بھی بتایا گیا ہے۔ ان میں سے چھ سڑک کنارے نصب بم پھٹنے سے مارے گئے جبکہ دو فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہوئے۔

عسکریت پسندوں کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کی جانب سے ایک انتباہی بیان مختلف رپورٹرز کو ارسال کیا گیا اور اُس میں بین الاقوامی سرمایہ کار اداروں، غیر ملکی ہوائی کمپنیوں اور ملٹی نیشنل آرگنائریشن کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ پاکستان کو چھوڑ دیں بصورت دیگر انہیں حکومتِ پاکستان کا حلیف سمجھا جائے گا۔ ترجمان کے مطابق اِس صورت میں وہ بھی اُن کا ٹارگٹ ہوں گے۔ شاہد اللہ شاہد کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ بدلے میں اب اسلام آباد اور لاہور شہروں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ آپریشن شروع ہونے کے بعد پاکستان کے بڑے شہروں میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔

طالبان کی جانب سے جوابی کارروائی کی دھمکی سامنے آئی ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo

شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کے جامع آپریشن کا بڑے عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ اس علاقے میں ٹھکانے بنائے ہوئے شدت پسند پاکستان، سکیورٹی فورسز، افغانستان اور نیٹو فوج پر بھی حملوں سے گریز نہیں کرتے تھے۔ امریکا خاصے عرصے سے پاکستان پر ایسے آپریشن کو شروع کرنے کا مطالبہ کر رہا تھا۔ واشنگٹن حکومت شاکی تھی کہ اسلام آباد حکومت قبائلی علاقوں میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے میں دلچسپی کیوں نہیں رکھتی۔ یہ امر اہم ہے کہ اِس آپریشن سے نواز شریف حکومت کے عسکریت پسندوں سے مذاکرات جاری رکھنے کی پالیسی کی عملاً موت واقع ہو گئی ہے۔

اِس آپریشن پر امریکی حکومت کا تبصرہ سامنے آیا ہے اور اُس میں کہا گیا کہ یہ پاکستان کا اپنا فوجی آپریشن ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان جین ساکی کا کہنا ہے کہ واشنگٹن حکومت نے ہمیشہ پاکستان کی اُن کوششوں کی حمایت کی ہے جو وہ قبائلی علاقوں میں حکومتی عملداری قائم کرنے سے متعلق ہوتی ہیں۔ جین ساکی نے شمالی وزیرستان میں شروع ہونے والے فوجی آپریشن کے افغانستان میں امریکی کوششوں کو حاصل ہونے والی ممکنہ تقویت پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں