شمالی وزیرستان: دہشت گردانہ سرگرمیوں میں اضافہ، پاکستانی فوج
1 جون 2019
پاکستانی فوج کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ملک کے شمال مغربی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں افغان سرحد کے قریب دہشت گردوں کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اشتہار
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ ایک فوجی ہفتے کے روز ایک ریموٹ کنٹرول بم کا نشانہ بنا۔ بیان کے مطابق حالیہ کچھ عرصے میں دہشت گردوں کی کارروائیوں کے نتیجے میں پانچ فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ فوجی بیان میں کہا گیا ہے، ''شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔‘‘
اس بیان میں مزید کہا گیا کہ پچھلے ایک ماہ میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات میں پاکستان کے پانچ فوجی ہلاک جب کہ 31 زخمی ہو چکے ہیں۔
شمالی وزیرستان پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کا ایک قبائلی ضلع ہے، جو افغان سرحد سے متصل ہے۔ یہ علاقہ کبھی عسکریت پسندوں کا ایک مضبوط گڑھ ہوا کرتا تھا، جہاں القاعدہ اور حقانی نیٹ ورک جیسے دہشت گرد گروہ پناہ لیتے تھے۔ پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ سن 2014ء میں ایک بڑے عسکری آپریشن کے ذریعے اس علاقے سے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا گیا تھا۔
25 مئی کو اس علاقے میں عسکریت پسندی کے الزام میں چند افراد کو حراست میں لیا گیا تھا، تاہم اس پر علاقے میں مظاہرے دیکھے گئے تھے جب کہ پشتون علاقوں میں متحرک پشتون تحفظ موومنٹ کی جانب سے بھی اس پر اعتراض کیا گیا تھا۔
شمالی وزیرستان کے عید کی خوشیوں کے منتظر بچے
عسکریت پسندوں کے خلاف جاری پاکستانی فوجی آپریشن ضربِ عضب کے باعث اب تک شمالی وزیرستان سے نکلنے پر مجبور ہو جانے والے شہریوں کی تعداد دس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، جن میں عید کی خوشیوں کے منتظر بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: DW/D. Baber
انڈے فروخت کرتا طالب علم
شاکر اپنے گاؤں میں چوتھی جماعت کا طالب علم تھا۔ اب وہ ابلے ہوئے انڈے فروخت کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کو جتنا بھی منافع ملتا ہے، وہ اپنی والدہ کے پاس جمع کروا دیتا ہے تاکہ وہ عید کے موقع پر اس کے لیے اور اُس کی چھوٹی بہن کے لیے نئے کپڑے خرید سکے۔
تصویر: DW/D. Baber
مہندی کے خوبصورت رنگ
دنیا بھر کے مسلمان رمضان کے روزے رکھنے کے بعد عید کا تہوار مناتے ہیں۔ چھوٹی عید یا عید الفطر منانے میں بچے پیش پیش ہوتے ہیں۔ مہندی، چوڑیاں، نئے کپڑے اور نئے جوتے پہن کر ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ عید کی خوشیاں منائے لیکن اس سال وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے لاکھوں افراد گھر سے دور بے سر و سامانی کے عالم میں عید منا رہے ہیں۔
تصویر: DW/D. Baber
عید تب ہو گی، جب گھر لوٹیں گے
نائلہ کی عمر 12 سال ہے۔ اس نے بتایا کہ ان کی عید اس دن ہو گی جب حکومت ان کو واپس اپنے گاؤں جانے کی اجازت دے گی۔ اس کو اپنی بکریاں یاد آتی ہیں، جنہیں وہ میرعلی ہی میں چھوڑ آئی ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
لاپتہ والد اور چچا کی منتظر آنکھیں
تین سالہ سدرہ ہر وقت کیمپ میں مقیم دوسرے بچوں کو کہتی ہے کہ اس کے ابو اور چچا عید پر اس کو لینے آئیں گے اور اسے نئے کپڑے، بالیاں اور چوڑیاں خرید کر دیں گے لیکن سدرہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان دونوں کا گزشتہ ایک مہینے سے کچھ اتہ پتہ نہیں ہے اور یہ کہ اب تو رفتہ رفتہ ان کے زندہ ہونے کی امیدیں بھی دم توڑتی جا رہی ہیں۔ سدرہ کا والد اور چچا کرفیو کی وجہ سے میران شاہ میں پھنس گئے تھے۔
تصویر: DW/D. Baber
ننگے پاؤں پھرتا سیف اللہ
پانچ سالہ سیف اللہ اس بات پر بہت خوش ہے کہ اس کا نانا اسے جوتے خریدنے کے لیے بنوں شہر کے بازار لے کر آیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میرعلی سے سفر کے دوران اس کے چپل راستے میں گم ہو گئے تھے اور وہ آج تک بغیر چپل کے پھر رہا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ وہ ابھی بھی ان نئے جوتوں کو استعمال نہیں کرے گا بلکہ اب انہیں عید پر ہی پہنے گا۔
تصویر: DW/D. Baber
’آج تو ابو ضرور نئے کپڑے لائیں گے‘
کیمپ میں رہائش پذیر بچے دن بھر والدین کی راہ تکتے رہتے ہیں کہ وہ شام کو ان کے لیے کس قسم کی اشیاء لے کر آئیں گے، جو وہ ممکنہ طور پر عید پر پہن سکیں گے۔ چار سالہ شکیلہ کا کہنا ہے کہ اس کا والد اس کے لیے نئے سرخ رنگ کے کپڑے لے کر آئے گا:’’وہ روز وعدہ کرتے ہیں لیکن آج وہ ضرور لائیں گے‘‘۔
تصویر: DW/D. Baber
معصوم خواہشیں اور چوڑیاں
فائزہ کی چوڑیاں پہنے کی خواہش اس وقت پوری ہوئی جب ایک سرکاری افسر نے فائزہ کو روتے ہوئے دیکھ کر سو روپے دیے۔ اسے بازار لانے والے اس کے بھائی کا کہنا ہے کہ اس نے چوڑیاں لینے کی ضد اس لیے کی کیونکہ پڑوس کی بچیوں نے بھی عید کے لیے چوڑیاں خریدی تھیں۔
تصویر: DW/D. Baber
کرکٹ کا شوقین عباد
عباد کو کرکٹ کھیلنے کا بہت شوق ہے۔ اس کا پسندیدہ کھلاڑی شاہد آفریدی ہے۔ عباد کہتا ہے کہ اس کی عید تو اسی دن ہو گئی تھی، جب عمران خان کے لوگوں نے اس کو کھیلنے کے لیے ایک بیٹ دیا تھا۔ وہ صرف سہ پہر کو اپنے دوستوں کے ساتھ کیمپ میں کھیلتا ہے کیونکہ دن کے وقت بہت گرمی ہوتی ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
سلائی مشین کے لیے شکر گزار بصوبانہ
بصوبانہ پاک آرمی اور بحریہ ٹاؤن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہتی ہے:’’میں ان دونوں اداروں کی بہت شکر گزار ہوں، انہوں نے مجھے سلائی مشین اور کپڑا دیا، اس کی وجہ سے اب عید پر اپنےاور بچوں کے لیے نئے کپڑوں کی فکرختم ہو چکی ہے۔‘‘
تصویر: DW/D. Baber
لکھ پتی چنے بیچنے پر مجبور
اپنے آبائی گاؤں دتہ خیل سے کوہاٹ نقل مکانی کرنے والے گلزار کا کہنا ہے کہ اس کا دتہ خیل میں لاکھوں روپوں کا ہول سیل کا کاروبار تھا۔ وہ کہتا ہے کہ حکومت نے انہیں نکلنے کے لیے صرف تین دن کا وقت دیا تھا جس کے دوران وہ صرف اپنے خاندان کو محفوظ مقام تک پہنچا پایا۔ اب وہ ایک مقامی تاجر کے ساتھ مل کر چنے بیچ رہا ہے اور یوں اپنے پانچ بچوں کو پال رہا ہے:’’میرے لیے یہ عید کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہے‘‘۔
تصویر: DW/D. Baber
کلاس روم کی بجائے لمبی لمبی قطاروں میں
شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے لوگوں میں زیادہ تر تعداد معصوم بچوں کی ہے۔ فاٹا ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے مطابق آئی ڈی پیز میں لگ بھگ چار لاکھ بچے شامل ہیں، جنہوں نے اپنے والدین کے ہمراہ ہجرت کی ہے۔ ان بچوں کو اپنی پڑھائی بھی منقطع کرنا پڑی ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ بچے اپنا یہ نقصان کیسے پورا کر پائیں گے۔
تصویر: DW/D. Baber
ہمہ وقت امدادی سامان کا انتظار
نقل مکانی کرنے والے بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ لوگ وزیرستان میں عید الفطر کے تہوار کو ہمیشہ جوش وخروش سے مناتے رہے ہیں لیکن اس سال صورت حال مختلف ہے۔ عید منانا اور بچوں کی خواہشات پوری کرنا تو دور، ان کی روزمرہ کی ضروریات پوری نہیں ہو رہی کیونکہ انہیں جنگ کی وجہ سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آنا پڑا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں اُن کا سارا وقت امدادی سامان کا انتظار کرتے گزرتا ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
راشن کے ساتھ کھلونے بھی
مختلف سرکاری ، غیرسرکاری اور فلاحی ادارے بے گھر لوگوں کی مدد کرنے میں مصروف ہیں۔ عید کی مناسبت سے راشن کے ساتھ ساتھ عید کی مناسبت سے بچوں کے لیے کھلونے اور دوسری اشیاء بھی تقسیم کی جا رہی ہیں، جن کے حصول کے لیے والدین کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
13 تصاویر1 | 13
اسی تناظر میں ایک چیک پوسٹ کے قریب پشتون تحفظ موومنٹ کے مظاہرین اور فوج کے درمیان پیش آنے والے ایک ناخوشگوار واقعے میں فوجیوں کی فائرنگ کے نتیجے میں کم ازکم چار مظاہرین ہلاک جب کہ درجنوں زخمی بھی ہو گئے تھے۔ اسی واقعے کے تناظر میں شمالی اور جنوبی وزیرستان سے منتخب ہونے والے پاکستانی قومی اسمبلی کے دو اراکین محسن داوڑ اور علی وزیر کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔