1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کا سلسلہ جاری

فرید اللہ خان17 جون 2014

پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کی وجہ سے ہزاروں افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔ یہ لوگ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سمیت پنجاب کے سرحدی علاقوں میں پہنچ رہے ہیں۔

تصویر: AFP/Getty Images

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 70ہزار افراد ضلع بنوں اور کوہاٹ جبکہ 63 ہزار سے زیادہ نے لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان، بھکر اور فتح جنگ میں پناہ لی ہے۔ نقل مکانی کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد افغان صوبہ خوست بھی پہنچی ہے۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ ان مہاجرین کے لیے ضلع گور باز میں باقاعدہ کیمپ بنائے جائیں گے اور ان کی ہر ممکن مدد بھی کی جائے گی۔ اسی تناظر میں گورنر خیبر پختونخوا مہتاب عباسی کا کہنا ہے کہ افغانستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اور انہیں اُمید ہے کہ وہ پاکستان کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ انہوں نے افغان حکومت سے سرحدیں سیل کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے تاکہ غیر ملکی دہشت گرد افغانستان میں پناہ نہ لے سکیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نقل مکانی کرنے والوں کے لیے کیمپ بنائے گئے ہیں جہاں تمام جہاں تمام سہولیات مہیا کی جائیں گی۔ وزیرستان کی تحصیل سپین وام سے تعلق رکھنے والے گل نعیم وزیر کا کہنا ہے”بنوں کے قریب ایک کیمپ بنایا گیا ہے جہاں دس پندرہ خیمے لگائے گئے ہیں لیکن اس میں کوئی بھی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بڑی تعداد میں لوگ وہاں پھنس چکے ہیں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ مذاکرات کے نتیجے میں امن قائم ہو گا لیکن حکومت نے اچانک آپریشن شروع کر دیا۔ جتنے بھی لوگ وہاں سے نکلے ہیں ان کا آپس میں کوئی رابطہ بھی ہے۔ لوگوں کو بہت مشکلات کا سامنا ہے“۔

تصویر: Reuters

وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے زیادہ تر لوگوں کو کرائے کے گھر حاصل کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ سرکاری سرپرستی میں ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں میں بنائے گئے کیمپوں قبائلی روایات، سہولیات کے فقدان اور شدید گرمی کی وجہ سے لوگ یہاں رہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کیمپوں میں نہ ٹہرنے کی ایک بڑی وجہ علاقے میں متحرک جنگجو گروپوں کی دھمکیاں بھی ہیں۔ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں دیگر قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ سے زیادہ افراد رہائش پذیر ہیں تاہم اکثریت کرایہ کے مکانوں یا پھر رشتہ داروں کے ہاں ٹہرے ہیں۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کا دعویٰ ہے کہ آپریشن کے نتیجے میں نقل مکانی کرنے والوں کے لیے انتظامات مکمل کر دیے گئے ہیں۔سابق صوبائی وزیر اور رکن اسمبلی شوکت علی یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ’’ فاٹا کے عوام کی اپنی روایات ہیں انہیں سامنے رکھنا چاہئے۔ جہاں تک ان کی مدد کرنے کا تعلق ہے ہم اس کے لیے تیار ہیں لیکن بنیادی طور پر یہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان لوگوں کی مدد کرے‘‘۔

شمالی وزیر ستان پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دوسری بڑی ایجنسی ہے۔ گیارہ تحصیلوں پر مشتمل شمالی وزیرستان کی آبادی پانچ لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ اسکی سرحدیں افغان صوبہ خوست اور پکتیا سے ملتی ہیں۔ اس کے شمال میں اور کزئی اور کرم ایجنسی جبکہ مشرق میں خیبر پختونخوا کا ضلع بنوں اور کرک واقع ہیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں