پاکستانی قبائلی علاقوں میں طیاروں سے حملے، ’درجنوں ہلاکتیں‘
20 فروری 2017پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے پیر بیس فروری کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق پاکستانی فوج کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملکی جنگی طیاروں سے آج شدت پسندوں کے جن ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا، وہ تقریباﹰ سب کے سب قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں وُوچہ بی بی کے مقام پر بنائے گئے تھے۔
پاکستان آرمی کے بیان کے مطابق ان فضائی حملوں میں درجنوں عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ تاہم ایسوسی ایٹڈ پریس نے یہ بھی لکھا ہے کہ ان ہلاکتوں کی تعداد کی غیر جانبدار ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی کیونکہ پاکستانی حکام نے اس علاقے تک ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی رسائی پر خصوصی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ ہفتے مختلف شہروں میں کیے گئے سلسلے وار دہشت گردانہ حملوں اور خود کش بم دھماکوں میں 100 سے زائد افراد مارے گئے تھے۔ ان میں سے 20 بچوں سمیت کم از کم 88 افراد صرف ایک دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔ یہ حملہ صوبہ سندھ کے شہر سیہون میں شہباز قلندر کے مزارکے احاطے میں کیا گیا تھا۔
ان حملوں کے بعد پاکستانی حکومت نے ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ دہشت گردوں کا مقابلہ پوری طاقت سے کیا جائے گا اور عوامی جان و مال کے تحفظ میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں کی جائے گی۔
پاکستان میں گزشتہ ہفتے کے ان بم حملوں کی ذمے داری ایسے ایک سے زائد عسکریت پسند گروپوں نے قبول کی تھی، جو پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی قبائلی علاقوں میں سرگرم ہیں، یا جنہوں نے وہاں اپنے ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں۔
اس سے قبل پاکستانی فوج کے توپ خانے نے ملکی سرحد کے پار افغان علاقے میں گزشتہ جمعے اور ہفتے کے روز کئی ایسے مقامات پر شدید گولہ باری بھی کی تھی، جہاں پاکستانی فوج کے مطابق ان مشتبہ دہشت گردوں نے اپنے کیمپ قائم کر رکھے ہیں، جو پاکستان میں خونریز کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔
اپنے توپ خانے سے اس گولہ باری سے قبل پاکستان نے اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کے ایک اعلیٰ اہلکار کو پاکستانی فوج کے ہیڈکوارٹر جی ایچ کیو بلا کر 76 ایسے مطلوب پاکستانی دہشت گردوں کی ایک فہرست بھی اس سفارت کار کے حوالے کی تھی، جو پاکستان میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی وجہ سے قانون کو مطلوب ہیں۔
اسی تناظر میں اسلام آباد میں افغان سفیر نے بھی آج پیر کے روز 85 ایسے مشتبہ سرکردہ دہشت گردوں کی ایک فہرست بھی پاکستان کے حوالے کر دی، جو کابل حکومت کے مطابق افغانستان کو مطلوب ہیں اور جنہوں نے پاکستان میں پناہ لے رکھی ہے۔
اسی طرح کابل میں افغان وزارت خارجہ کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق پاکستانی حکام کے حوالے کی جانے والی اس افغان فہرست میں 32 ایسے مقامات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے، جہاں افغان باغیوں نے اپنے مراکز قائم کر رکھے ہیں اور جن کے بارے میں کابل کا مطالبہ ہے کہ پاکستان کو باغیوں کے یہ تمام ٹھکانے تباہ کرنے چاہییں۔
اسی دوران پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے آج ملکی فوجی کے اعلیٰ افسروں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں ہدایت کی کہ پاکستانی دستوں کو اپنے افغان ہم منصب اہلکاروں کے ساتھ پورا تعاون کرنا چاہیے تاکہ مختلف عسکریت پسند گروپوں اور ملیشیا گروہوں کے ارکان کو دوطرفہ سرحد عبور کرنے سے روکا جا سکے۔