شمالی وزیرستان میں زمینی فوجی کارروائی کا آغاز
30 جون 2014پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ اور اس کے گردو نواح میں زمینی کارروائی شروع کر دی ہے۔ فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کی طرف سے آج پیر 30 جون کو جاری کیے گئے بیان کے مطابق زمینی کارروائی عام آبادی کی طرف سے علاقہ خالی کرنے کے بعد شروع کی گئی ہے۔
آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق فوج کے خصوصی دستے میران شاہ میں گھر گھر تلاشی لے رہے ہیں اور زمینی کارروائی کے نتیجے میں اب تک 15 شدت پسند مارے گئے ہیں، جبکہ دہشت گردوں سے فائرنگ کے تبادلے میں تین فوجی جوان بھی زخمی ہوئے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ فوج نے علاقے میں بارودی سرنگیں اور دیسی ساختہ بم بنانے کے ایک کارخانے کابھی پتہ چلایا ہے۔ بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ میر علی کے علاقے میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر توپ خانے، ٹینک اور بھاری اسلحے سے فائرنگ جاری ہے جبکہ دیگر علاقوں میں شدت پسندوں کا محاصرہ جاری ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق 15 جون کو شروع ہونے والے آپریشن ضربِ عضب میں اب تک 376 دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ 19 نے ہتھیار پھینک کر خود کو حکام کے حوالے کر دیا ہے۔ اس آپریشن میں 17 فوجی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ جاوید حسین کا کہنا ہے کہ فوج کا مقصد صرف اپنے علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنا نہیں ہونا چاہیے: ’’آپریشن کامیاب اس وقت ہوتا ہے جب ایک بھی دہشتگرد بھاگ نہیں سکتا ہے اور سب مارے جاتے ہیں جس کا مطلب ہے خاتمے کی حکمت عملی۔ جنرل کیانی کی جو سوات اور جنوبی وزیرستان میں تھی وہ تھی جگہ پر قبضے کی حکمت عملی۔ مجھے لگ رہا ہے یہ جو شمالی وزیرستان میں آپریشن کیا گیا ہے یہ بھی اس طریقے پر کیا گیا ہے جن کو مارنا چاہیے اور جو دہشت گرد ہیں وہ نکل گئے ہیں۔ تو پھر آپریشن کا مقصد کیا ہوا؟ ‘‘
بریگیڈیئر (ر)جاوید حسین کے مطابق زمینی کارروائی کے آغاز کے بعد فوج کو شہروں میں بھی دہشت گردوں کی جوابی کاروائیوں کو روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے۔ انہوں نے کہا: ا’’سپر پرائز ریڈ کرنے کے لیے ملٹری انٹیلیجنس اور آئی ایس آئی کی مضبوط خفیہ معلومات پر اس کی سربراہی خصوصی کمانڈوز ایس ایس جی کی ٹیمیں کرتیں کہ پہلے ان کو ختم کرو۔ آپ محاذ کھول رہے ہیں تو پہلے عقبی علاقے کو محفوظ کرو۔ وہ ہوا نہیں اللہ کرے کچھ نہ ہو لیکن مجھے لگ رہا ہے وہ کریں گے۔‘‘
شمالی وزیرستان میں فوج کی جانب سے جاری آپریشن ضرب عضب میں اب تک چار لاکھ سے زائد افراد بے گھر چکے ہیں۔ ان افراد میں سے چند ہزار نے پڑوسی ملک افغانستان میں بھی پناہ لی ہے۔ جبکہ اکثریت نے صوبہ خیبر پختوانخوا کے مخلتف علاقوں میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں قیام کو ترجیح دی ہے۔ سہولیات کے فقدان اور پردے کی پختون روایات کی وجہ سے بہت کم کنبوں نے فوج کی جانب سے بنائے گئے پناہ گزین کیمپوں میں رہائش اختیار کی ہے۔
خیال رہے کہ شمالی وزیرستان میں زمین کارروائی مسلمانوں کے مقدس ماہ رمضان کے آغاز پر شروع کی گئی ہے۔ اس سے قبل مخلتف علماء نے فریقین سے رمضان کے دوران جنگ بندی کی اپیل کی تھی۔