1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی وزیرستان کے لیے مجوزہ ترقیاتی پیکج، ملا جلا ردعمل

فرید اللہ خان ، پشاور7 مارچ 2014

وفاقی حکومت نے شمالی وزیر ستان کے لیے دس ارب روپے کا ایک پیکج تیار کیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کو جنگ بندی اور امن معاہدے کے بعد عملی جامہ پہنایا جائے گا۔

دس ارب روپے کے اس مجوزہ پیکج میں صحت ،تعلیم، مواصلات، پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے علاوہ خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے ایک مربوط پروگرام بھی شامل ہے۔ اس پیکج کے تحت نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی، مفت سفری سہولیات اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے ماہانہ وظیفے کو ممکن بنایا جائے گا جبکہ دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کے ورثاء کو پانچ لاکھ روپے بھی دیے جائیں گے۔

وزیر اعظم ڈیولپمنٹ پیکج برائے شمالی وزیرستان کے حوالے سے سفارشات مرتب کی جا رہی ہیں۔ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد اس پر عمل درآمد کے لیے گورنر خیبرپختوانخوا کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی جائے گی، جس میں وفاقی اور صوبائی حکومت کے نمائندے، شمالی وزیرستان کے پولیٹیکل ایجنٹ اور قبائلی عمائدین شامل ہوں گے۔ اس پیکج کے حوالے سے جب معروف تجزیہ نگار اور قبائلی اُمور کے ماہر ڈاکٹر یوسف علی سے ڈوئچے ویلے نے بات کی تو ان کا کہنا تھا ”شمالی وزیرستان دہشتگردی سے متاثر ضرور ہے لیکن یہاں کبھی فوجی آپریشن نہیں ہوا اور حکومت 2005 ء سے آپریشن کرنے سے کترارہی ہے یہاں سے پہلی مرتبہ لوگوں نے نقل مکانی کی ہے۔ اس علاقے کے مقابلے میں مہمند، خیبر اور باجوڑ ایجنسی کا بنیادی ڈھانچہ زیادہ تباہ ہوا ہے۔ مہمند اور باجوڑ ایجنسی کے 130میں سے 100سکول تباہ کئے گئے، جس کی و جہ سے پچاس ہزار بچے تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں‘‘۔

تصویر: DW/D. Baber

ان کا مزید کہنا تھا کہ شمالی وزیر ستان کے لیے اس طرح کا پیکج یقینا خوش آئند ہے لیکن اس سے دیگر قبائلی علاقوں کے عوام کے احساس کمتری میں مبتلا ہونے کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔ جنوبی وزیرستان، باجوڑ اور مہمند ایجنسی میں عسکریت پسندوں کے خلاف 2005ء سے 2008ء تک آپریشن ہوا جبکہ خیبر ایجنسی میں ابھی تک آپریشن جاری ہے۔ ان علاقوں کے ہزاروں خاندان آج بھی بے گھر ہیں اور حکومت کو چاہیے کہ فاٹا سیکرٹریٹ سے مکمل تفصیل لے کر متاثرہ علاقوں کے لیے ایک مربوط ترقیاتی اور بحالی پیکج تیار کرے‘‘۔

شمالی وزیرستان کے علاوہ دیگر قبائلی علاقوں کے عوام بھی ایک عرصے سے حکومت سے علاقے میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ وانا کے ملک جمیل احمد خان کا کہنا ہے ” قبائلی علاقوں میں تعلیم کی اشد ضرورت ہے جبکہ ان علاقوں میں اگر صنعت قائم کی جائے تو بے روزگاری کا خاتمہ ہوسکے گا کیونکہ یہی بے روزگاری بدامنی کا باعث بنتی ہے‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت دیگر علاقوں کی طرح قبائلی علاقوں میں بھی روزگار سکیم کے تحت آسان شرائط پر قرضے فراہم کرے۔ جنوبی وزیر ستان ایک زرعی علاقہ ہے، جہاں ایک درجن سے زیادہ قسم کے سیب اور دیگر پھل پیدا ہوتے ہیں اگر حکومت اس کے لیے پروسیسنگ زون بنائے تو مقامی لوگوں کے ساتھ ملک کا بھی فائدہ ہوگا‘‘۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق غیر یقینی ی صورتحال کی وجہ سے شمالی وزیرستان سے4 مارچ کے بعد سے اب تک 22 ہزار سے زائد افراد نے نقل مکانی کی ہے اور یہ افراد صوبے کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔

دوسری جانب خیبر پختونخوا کی حکومت اور حزب اختلاف کے ارکان پارلیمنٹ نے ایک مشترکہ اجلاس کے بعد وفاق سے مطالبہ کیا ہے کہ دہشتگردی سے متاثرہ افراد کی بحالی کے نام پرآنے والی امداد صوبائی حکومت کودی جائے۔ سینئر صوبائی وزیر سراج الحق کا کہنا ہے کہ پوری دنیا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پرمتاثرہ علاقوں کے لیے فنڈز بھیجے ہیں، جو ابھی تک صوبائی حکومت کو نہیں ملے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں