شمالی وزیرستان کے مہاجرین کی گھروں کو واپسی شروع
31 مارچ 2015اس واپسی کے پہلے مرحلے میں آج منگل اکتیس مارچ کے روز صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں کے بکاخیل نامی مہاجر کیمپ سے شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے 62 خاندان اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔
اس مرحلے میں مجموعی طور پر داخلی مہاجرت کرنے والے 1260 خاندان فوج کی نگرانی میں اپنے آبائی علاقوں کو لوٹیں گے۔ ان متاثرین کو چار ذیلی مراحل میں واپس ان کے علاقوں میں بھیجا جائے گا۔ ان خاندانوں میں سے ہر ایک کو سفری اخراجات کے لیے دس دس ہزار روپے جبکہ گھریلو اخراجات کے لیے پچیس پچیس ہزار روپے دیے جا رہے ہیں۔
پاکستانی فوج کے انجینئرنگ ڈویژن کے میجر جنرل اخترجمیل راؤ نے خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں کے بکاخیل کیمپ میں ایک تقریب کے دوران واپس جانے والے بے گھر افراد کو تمام تر سہولیات کی فراہمی کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا، ’’وزیر اعظم نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے ان قبائلی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ آپریشن مکمل ہوتے ہی انہیں جلد از جلد بحفاظت اور باعزت طریقے سے واپس ان کے گھروں کو بھیج دیا جائے گا۔ آج یہ وعدہ پورا ہوگیا ہے اور واپس جانے والوں کو تمام تر سہولیات کے ساتھ ساتھ تحفظ بھی فراہم کیا جائے گا۔‘‘
شمالی وزیر ستان میں موجود ملکی اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی ناکامی کے بعد فوج نے ان علاقوں میں چھپے دہشت گردوں کے خلاف گزشتہ برس جون میں ضربِ عضب کے نام سے مسلح کارروائی شروع کی تھی، جس سے قبل شمالی وزیر ستان سے گیارہ لاکھ سے زائد باشندے نقل مکانی کر کے خیبر پختونخوا اور ملک کے دیگر علاقوں میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔
اب حکومت نے ان متاثرین کی واپسی کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ اس دوران خیبر ایجنسی اور شمالی اور جنوبی وزیرستان کے قبائلی علاقوں کے چالیس ہزار سے زائد خاندانوں کی واپسی کے لیے انتظامات کیے گئے ہیں، جنہیں مختلف مراحل میں واپس بھیجا جائے گا۔
اسی دوران وفاق پاکستان کے زیر انتظام علاقوں یا فاٹا سیکریٹریٹ کے ترجمان عدنان خان نے کہا، ’’حکومتی ہدایات کے مطابق واپس جانے والے متاثرین کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں کی بحالی کے ساتھ ساتھ اشیائے خورد و نوش کی فراہمی اور صحت کی بنیادی سہولیات مہیا کرنے کے لیے مراکز کھول دیے گئے ہیں، جہاں ان شہریوں کو تمام سہولیات مہیا کی جائیں گی۔‘‘
دوسری جانب وفاقی حکومت نے واپس جانے والے شمالی وزیرستان کے متاثرین کو آٹھ صفحات پر مشتمل ایک معاہدے کی دستاویز بھی دی ہے، جس میں انہیں مختلف ہدایات دی گئی ہیں۔ اس دستاویز میں ایسے شہریوں کو 17 مختلف شرائط کا پابند بنایا گیا ہے، جن میں دیگر امور کے علاوہ ملکی اور غیر ملکی عسکریت پسندوں پر نظر رکھنا، ان کی موجودگی سے حکومتی اداروں کو خبردار کرنا، کسی بھی غیر ملکی یا کالعدم تنظیم کے کسی رکن کو پناہ نہ دینا، بھاری اسلحہ نہ رکھنا، پاکستان کے آئین کا احترام کرنا اور مقامی قوانین کی پاسداری کرنا بھی شامل ہیں۔
شمالی وزیرستان کے زیادہ تر قبائلی اس معاہدے سے خوش نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں جب ڈوئچے ویلے نے شمالی وزیر ستان کے ملک قادر خان داوڑ سے گفتگو کی تو انہوں نے کہا، ’’ہم نے تو اس بدامنی کی وجہ سے گھر بار چھوڑا۔ اس معاہدے سے زیادہ تر قبائل کو اختلاف ہے کیونکہ امن کا قیام تو حکومت کی ذمے داری ہے۔ اگر یہ ہمارے بس کی بات ہوتی تو ہم اپنا گھر بار چھوڑتے ہی کیوں؟‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اور داوڑ قبائل کے مشیران اس بات پر مشورے کر رہے ہیں۔ اب تک انہوں نے یہ معاہدہ تسلیم نہیں کیا۔ ’’اس معاہدے کا مطلب یہی ہو گا کہ اگر کہیں کوئی بدامنی ہوئی تو اس کے سزاوار ہم قبائلی ہوں گے۔ ہم نے تو ملک کی سلامتی کی خاطر گھر بار چھوڑا۔ دس ماہ تک کرائے کے گھروں یا خیموں میں رہے۔ سختیاں برداشت کیں۔ اب تو حکومت کو چاہیے کہ وہ یہ اعلان کرے کہ آپ لوگوں اپنے گھروں کو جائیں، حفاظت ہم کریں گے۔ ایسے میں لوگوں کو زیادہ خوشی ہوتی۔‘‘
ایسے میں قبائلی باشندے جہاں غیر یقینی صورتحال سے دو چار ہیں، وہیں پر واپس جانے والوں کو مستقبل میں بنیادی سہولیات کی فکر بھی ستا رہی ہے۔ فوج کے مطابق شمالی وزیرستان کا نوے فیصد علاقہ دہشت گردوں سے پاک کر دیا گیا ہے تاہم اس جنگ کے دوران علاقے میں انفراسٹرکچر بری طرح تباہ ہوگیا ہے جس کی بحالی میں کئی سال اور اربوں روپے لگیں گے۔