’شمالی کوریا امریکا پر پہلے حملہ کرے، تو چین غیرجانبدار رہے‘
عاطف بلوچ، روئٹرز
11 اگست 2017
ایک چینی اخبار نے لکھا ہے کہ اگر شمالی کوریا امریکا پر حملے میں پہل کرتا ہے تو بیجنگ کو غیرجانبدار رہنا چاہیے لیکن اگر پہلے حملہ امریکا کرے اور شمالی کوریائی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرے تو اسے مداخلت کرنا چاہیے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے چین کے ایک سرکاری اخبار کے حوالے سے بتایا ہے کہ بیجنگ حکومت کو جزیرہ نما کوریا پر ہونے والی کسی بھی پیش رفت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ عوامی سطح پر انتہائی مقبول گلوبل ٹائمز نے اپنی جمعہ گیارہ اگست کی اشاعت میں لکھا کہ اگر شمالی کوریا امریکا پر حملہ کرتا ہے، جس کے نتیجے میں امریکی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے تو اس تناظر میں بیجنگ حکومت کو غیرجانبدار ہی رہنا چاہیے۔
اس اخبار کے مطابق البتہ اگر امریکا شمالی کوریا پر حملے میں پہل کرتا ہے یا اس کمیونسٹ ملک کی قیادت کو ہٹانے کی کوشش کرتا ہے، تو پھر چین کو بھی مناسب ردعمل ظاہر کرنا چاہیے۔
اس اداریے میں مزید لکھا گیا ہے کہ چینی حکومت امریکا یا شمالی کوریا پر اپنا اثر و رسوخ استعمال نہیں کر سکتی لیکن اسے یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر چین کی سلامتی یا مفادات کو خطرہ ہوا، تو اسے اپنا جواب ایک ’آہنی ہاتھ‘ سے دینا بھی آتا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کو ایک اور سخت وارننگ جاری کی ہے۔
ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ پیونگ یانگ امریکا یا اس کے کسی اتحادی ملک پر حملہ کرنے کا سوچے بھی مت، ورنہ اس کے ’سنگین نتائج‘ برآمد ہوں گے۔ قبل ازیں ٹرمپ نے اصرار کیا تھا کہ اگر اس کمیونسٹ ملک نے اپنا رویہ درست نہ کیا تو واشنگٹن حکومت اس کی طرف سے کسی عسکری کارروائی کرنے سے قبل ہی اس پر حملہ کرنے کے بارے میں غور کر سکتی ہے۔ شمالی کوریا کی طرف سے امریکی جزیرے گوآم پر حملے کی دھمکی کے بعد ان دونوں ممالک میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔
چین کو خطرہ ہے کہ اگر جزیرہ نما کوریا پر کوئی تنازعہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے منفی اثرات سے وہ بھی نہیں بچ سکے گا۔ ایسے امکانات بھی ہیں کہ اگر کوریائی ممالک ایک مرتبہ پھر جنگ کرتے ہیں تو چین کے شمال مغربی علاقوں میں مہاجرین کا شدید بحران پیدا ہو سکتا ہے جبکہ یہ بھی ممکن ہے کہ جنگی صورتحال کے بعد شمالی اور جنوبی کوریا کا اتحاد ہو جائے اور متحدہ کوریا امریکا کا قریبی حلیف بن جائے۔
واشنگٹن کے اتحادی ملک جنوبی کوریا میں امریکی افواج کی بڑی تعداد موجود ہے۔ شمالی کوریا دراصل ان امریکی فوجیوں اور چین کے مابین ایک بفر زون کا کام کرتا ہے۔ اسی طرح جاپان کے ساتھ چین کی سمندری حدود میں بھی شمالی کوریا ایک غیر فوجی زون کے مانند ہے۔ گلوبل ٹائمز نے لکھا ہے کہ جزیرہ نما کوریا پر عرصے سے موجود صورت حال کو بدلنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف چین کو مؤثر طریقے سے نمٹنا ہو گا۔
کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم؟
دنیا بھر میں اس وقت نو ممالک کے پاس قریب سولہ ہزار تین سو ایٹم بم ہیں۔ جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے مطالبات کے باوجود یہ تعداد کم نہیں ہو رہی۔ دیکھتے ہیں کہ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: AP
روس
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سِپری) کے مطابق جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے معاملے میں روس سب سے آگے ہے۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سابق سوویت یونین کی جانشین ریاست روس کے پاس اس وقت آٹھ ہزار جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kolesnikova
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس آج بھی 7300 ایٹم بم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 300 بتائی جاتی ہے۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 250 ایٹم بم ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 225 جوہری ہتھیار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kaminski
پاکستان
پاکستان کے پاس ایک سو سے ایک سو بیس کے درمیان جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سن 1998ء میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ پاکستان اور بھارت ماضی میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور اسلام آباد حکومت کے مطابق اس کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔