1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

شمالی کوریا نے اب جاپان کے قریب میزائل فائر کر دیا

3 نومبر 2022

شمالی کوریا کی جانب سے دوسرے روز بھی میزائل داغنے کا سلسلہ جاری رہا، جس میں سے ایک ممکنہ طور پر بین البراعظمی بیلسٹک میزائل بھی شامل ہے۔ اس کی وجہ سے جاپان میں عوام کو محفوظ مقامات پر پناہ لینے کا حکم بھی دینا پڑا۔

Raketentest in Nordkorea
تصویر: Heo Ran/REUTERS

جنوبی کوریا اور جاپان کے حکام کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے اندھا دھند میزائل فائر کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور جمعرات کے روز بھی اس نے متعدد بیلسٹک میزائل فائر کیے۔ بدھ کے روز بھی شمالی کوریا نے متعدد میزائل فائر کیے تھے، جس میں سے ایک میزائل جنوبی کوریا کی سرحد کے پاس گرا تھا۔ اس کی وجہ سے لوگ محفوظ مقامات پر پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔ 

شمالی کوریا نے مشرقی ساحل سے دو مزید میزائل فائر کر دیے

جمعرات کے روز بھی جنوبی کوریا نے جو متعدد میزائل فائر کیے اس میں سے ممکنہ طور پر ایک بین البراعظمی بیلسٹک میزائل تھا، جس کی وجہ سے جاپان کو ملک کے بعض مرکزی اور شمالی علاقوں میں انخلا کے لیے الرٹ جاری کرنا پڑا۔

امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا کا شمالی کوریا کو سخت وارننگ

جاپان کے وزیر اعظم فومیو کشیدا نے کہا ہے کہ ''شمالی کوریا کی جانب سے  بار بار میزائلوں کا داغنا، غم و غصے کی وجہ ہے اور اسے قطعی طور پر معاف نہیں کیا جا سکتا۔'' ان کا مزید کہنا تھا کہ ان راکٹوں میں سے ایک بین البراعظمی بیلسٹک میزائل ہو سکتا ہے۔

حالیہ مہینوں میں پیونگ یانگ نے اس طرح کے میزائل تجربات میں تیزی دکھائی ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ایسا وہ امریکہ اور جنوبی کوریا کی جانب سے خطے میں مشترکہ فوجی مشقیں دوبارہ شروع کرنے کے رد عمل میں کر رہا ہے۔ وہ ان مشترکہ مشقوں کو حملہ کرنے کی مشق کہتا ہے۔

جاپان الرٹ پر

جاپان میں ملک کے ہنگامی نشریاتی نظام جے الرٹ نے ابتدائی طور پر یہ اطلاع دی تھی کہ میزائل سمندر میں گرنے سے پہلے ملک کے اوپر سے پرواز کی۔ تاہم بعد میں ٹوکیو نے اس کو غلط خبر قرار دیا۔

اس کے بعد جاپانی وزیر دفاع یاسوکازو ہمادا نے کہا کہ ابتدائی طور پر ''ہمیں ایک ایسے لانچ کا پتہ چلا، جس نے جاپان کے اوپر سے پرواز کرنے کی صلاحیت کو ظاہر کیا اور اسی وجہ سے جے الرٹ متحرک ہو گیا۔ لیکن جب ہم نے پرواز کی جانچ کی، تو اس کے بعد ہم نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ جاپان کے اوپر سے نہیں گزری تھی۔'' 

جمعرات کے روز ہی ایک فون کال میں جنوبی کوریا اور واشنگٹن نے اس واقعے پر بات چیت کی اور مشترکہ طور پر حکام نے اس آخری لانچ کو ''افسوسناک'' اور ''غیر اخلاقی'' قرار دیتے ہوئے، اس کی مذمت بھی کی۔

عالمی سطح پر مذمت

جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے، بدھ کے روز شمالی کوریا کی جانب سے 23 میزائلوں کے تجربات کو، ''مؤثر طور پر ایک علاقائی حملہ'' قرار دیا تھا۔ اس سے پہلے شمالی کوریا نے ایک ہی دن کے اندر اتنی بڑی تعداد میں میزائل کبھی فائر نہیں کیے تھے۔

جمعرات کے روز بھی جنوبی کوریا نے جو متعدد میزائل فائر کیے اس میں سے ممکنہ طور پر ایک بین البراعظمی بیلسٹک میزائل تھا، جس کی وجہ سے جاپان کو ملک کے بعض مرکزی اور شمالی علاقوں میں انخلا کے لیے الرٹ جاری کرنا پڑاتصویر: Lee Jin-man/AP/picture alliance

بدھ کے تجربات میں سات مختصر فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل اور چھ زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل شامل تھے۔ جنوبی کوریا نے بھی اس کے جواب میں زمین سے فضا میں مار کرنے والے اپنے تین میزائل فائر کیے تھے۔

شمالی کوریا کے میزائلوں میں سے ایک نے دونوں ممالک کے درمیان کی سمندری سرحد کو عبور کیا تھا، جو جنوبی کوریا کے مشرقی ساحل سے صرف 57 کلومیٹر کے فاصلے پر گرا تھا۔ اس واقعے سے اولیونگ جزیرے پر فضائی حملے سے متعلق سائرن بج اٹھے اور لوگوں کو پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔

امریکہ نے اس فعل کو ''لاپرواہی'' قرار دیا اور کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ معاہدے کے تحت اس کے اتحادی جنوبی کوریا اور جاپان کے دفاع کے لیے فوجی صلاحیت موجود ہے۔

اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ یہ تجربات ''اس لحاظ سے غیر معمولی ہیں کہ اتنی زیادہ تعداد میں تھے۔''

یوروپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوسیپ بوریل کے ترجمان نے ان میزائل لانچوں کے تازہ ترین واقعے کو ''ایک غیر معمولی اور

 خطرناک اضافہ'' قرار دیا۔  برطانیہ نے بھی ''میزائلوں کی بے مثال تعداد'' کی مذمت کی جبکہ روس نے بھی پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔

کیا شمالی کوریا روس کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے؟

اس دوران امریکہ نے بدھ کے روز کہا کہ اس کے پاس ایسی معلومات ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ شمالی کوریا خفیہ طور پر روس کو یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے توپ خانے کے گولوں کی ''اہم'' تعداد فراہم کر رہا ہے۔

وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا، ''ہمیں ایسے اشارے ملے ہیں کہ شمالی کوریا خفیہ طور پر ہتھیار سپلائی کر رہا ہے اور ہم یہ دیکھنے کے لیے اس کی نگرانی کر رہے ہیں کہ آیا کھیپ موصول ہوئی ہیں یا نہیں۔''

ستمبر میں پیونگ یانگ نے کہا تھا کہ اس نے کبھی بھی روس کو ہتھیار یا گولہ بارود فراہم نہیں کیا اور نہ ہی ایسا کرنے کا کوئی منصوبہ ہے۔ شمالی کوریا کے رہنماؤں نے امریکہ سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ''اپنا منہ بند رکھیں '' اور افواہیں پھیلانا بند کر دیں، جس کا مقصد ملک کی شبیہ کو ''داغدار'' کرنا ہے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں