شمالی کوریا ، کم یو جونگ اپنے بھائی کی ممکنہ جانشیں
1 مئی 2020
11 اپریل سے شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کو عوامی مقامات پر نہیں دیکھا گیا ہے۔ اُن کی شدید علالت اور یہاں تک کہ انتقال کی افواہیں پھیل چکی ہیں۔ایسی صورتحال میں شمالی کوریا کی باگ ڈور کس کے ہاتھوں میں ہو گی؟
اشتہار
اپریل کی گیارہ تاریخ کو ہونے والے ورکرز پارٹی کے اجلاس میں کم جونگ اُن کو آخری مرتبہ دیکھا گیا تھا۔ منظرعام سے غائب ہونے کی وجہ سے اُن کے حوالے سے افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ کم جونگ اُن اپنے دادا کم السونگ کی پندرہ اپریل کو منائی جانے والی سالگرہ کی تقریبات میں بھی شریک نہیں ہوئے تھے۔ سونگ شمالی کوریا کے بانی ہیں اور ان کی سالگرہ اس ملک میں منائی جانے والی ایک اہم ترین تقریب ہوتی ہے۔
ذرائع ابلاغ خفیہ اطلاعات اورپیونگ یانگ کی ناقد برادریوں کا کہنا ہے کہ دل کے ایک آپریشن کے بعد سینتیس سالہ کم کی حالت انتہائی نازک ہے۔ اس صورتحال میں کم کے ممکنہ جانشیں کے بارے میں بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔
سیول کے سیجونگ انسٹیٹیوٹ کے لی سیئونگ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'' اس بارے میں کوئی شفافیت موجود نہیں ہے کہ شمالی کوریا کا اگلا رہنما کون ہو گا۔ اس بارے میں غیر یقینی پائی جاتی ہے۔‘‘
شمالی کوریا کی حکومت قانونی طور پر ایک طرح سے کم خاندان سے جڑی ہوئی ہے۔ کم جونگ ان کے حصے میں اپنے ملک کی باگ ڈور 2011ء میں اُن کے والد کم جونگ ال کے انتقال کے بعد آئی تھی۔ کم جونگ ال 1994ء میں اپنے والد کم السونگ کے مرنے کے بعد شمالی کوریا کے سربراہ بننے تھے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ کم کو اگر کچھ ہوتا ہے تو ان کی بہن' کم یو جونگ‘ جانشیں کے حوالے سے بہترین انتخاب ہو سکتی ہیں۔
کوریائی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ دونوں بہن اور بھائی ایک دوسرے سے بہت ہی قریب ہیں اور ان دونوں نے 1990ء کی دہائی کے آخری سال سوئٹزرلینڈ میں ایک ساتھ گزارے ہیں۔ سیول کی یونسی یونیورسٹی کے بونگینگ شک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کم جونگ ان اور کم یو جونگ نے بہت ساری چیزیں ایک ساتھ کی ہیں اور شمالی کوریا واپس آنے کے بعد بھی ان دونوں کے رشتے میں پہلے جیسی قربت برقرار رہی۔‘‘
کم یو جونگ کون ہیں؟
اکتوبر2017ء میں کم جونگ اُن نے اپنی بہن کو اپنی آنٹی 'کم کیونگ ہی‘ کی جگہ ملک کے اہم ترین پولٹ بیورو کا متبادل رکن بنا دیا تھا۔ کم جونگ ال جب تک حیات تھے تب بھی 'کم کیونگ ہی‘ ایک بہت ہی با اختیار شخصیت سمجھی جاتی ہیں۔
جنوری2017 ء میں امریکی محکمہ خزانہ نے اس وقت 28 سالہ کم یو جونگ اور کئی دیگر شمالی کوریائی عہدیداروں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام میں پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ ایک اور ماہر مشائیل مادین نے ڈی ڈبلیو کو دیےگئے اپنے ایک سابقہ انٹرویو میں کم یو جونگ کو اپنے بھائی کا قابل بھروسہ ہمراز قرار دیا تھا۔
جب اِن کی اُن سے ملاقات ہوئی
شمالی کوریائی رہنما کے بقول ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو نہیں دہرایا جائے گا۔ اپنے اولین دورہ جنوبی کوریا کے دوران انہوں نے کہا کہ خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک بنانے کی خاطر بھرپور تعاون کیا جائے گا۔
تصویر: Reuters
پہلا قدم
کم جونگ اُن پہلے شمالی کوریائی رہنما ہیں، جنہوں نے کوریائی جنگ میں فائر بندی کے 65 برس بعد جنوبی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھا۔ کم نے کہا کہ جنوبی کوریا داخل ہوتے ہی وہ ’جذبات کی ایک بڑی لہر میں بہہ نکلے‘۔ جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن سرحد پر کم جونگ اُن کا استقبال کرنے کو موجود تھے۔ ان دونوں رہنماؤں کی سمٹ کو تاریخی قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: KOCIS
نئے تعلقات کے آغاز کا عہد
کیمونسٹ رہنما کم جون اُن نے کہا کہ وہ ہمسایہ ملک جنوبی کوریا کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی ایک نئی تاریخ رقم کرنا چاہتے ہیں۔ سن انیس سو ترپن میں کوریائی جنگ کے خاتمے کے بعد سے پہلی مرتبہ کسی شمالی کوریائی رہنما نے جنوبی کوریا کا دورہ کیا ہے۔ جب کم جونگ اُن نے جنوبی کوریا کی سرحد عبور کی تو جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن نے ان کا استقبال کیا۔
تصویر: Reuters/Korea Summit Press Pool
تاریخی مصافحہ
جنوبی کوریا داخل ہونے پر اُن نے اِن سے ہاتھ ملایا۔ اس موقع پر کم نے کہا کہ یہ مصافحہ خطے میں قیام امن کی طرف ’افتتاحی قدم‘ ہے۔ کم جونگ اُن کی طرف سے جوہری اور میزائل پروگرام منجمد کرنے کے اعلان کے بعد جزیرہ نما کوریا پر کشیدگی کا خاتمہ ہوتا ممکن نظر آ رہا ہے۔ چین اور امریکا نے بھی دونوں کوریائی ممالک کے رہنماؤں کے مابین اس براہ راست ملاقات کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters/Korea Summit Press Pool
شمالی کوریائی وفد
جنوبی کوریا کا دورہ کرنے والے شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن کے ساتھ ان کی ہمشیرہ اور قریبی مشیر کم یو جونگ کے علاوہ کمیونسٹ کوریا کے بین الکوریائی تعلقات کے شعبے کے سربراہ بھی تھے۔ اسی طرح جنوبی کوریائی صدر کے ہمراہ ان کے ملک کے انٹیلیجنس سربراہ اور چیف آف سٹاف بھی تھے۔
تصویر: KOCIS
’ہم ایک قوم ہیں‘
شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن نے جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن کے ساتھ سمٹ میں کہا، ’’اس میں کوئی منطق نہیں کہ ہم آپس میں لڑیں۔ ہم تو ایک ہی قوم ہیں۔ چند ماہ قبل کم جونگ اُن کی طرف سے ایسے کلمات سننے کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ جنوبی کوریا میں کئی حلقے اس سمٹ پر محتاط انداز سے ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس خطے کو جوہری ہتھیاروں سے پاک بنانے میں کئی رکاوٹیں حائل ہو سکتی ہیں۔
تصویر: KOCIS
ایٹمی ہتھیاروں کا معاملہ
اس سمٹ کے پہلے دور میں دونوں لیڈروں نے ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے علاوہ قیام امن کے امکانات پر بھی بات چیت کی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق جنوبی کوریائی صدر مُون جے اِن اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن نے جزیرہ نما کوریا کو غیر ایٹمی خطہ بنانے کے موضوع پر انتہائی سنجیدگی اور ایمانداری سے تبادلہ خیال کیا۔
تصویر: KOCIS
عالمی برداری خوش
1953ء میں کوریائی جنگ میں فائر بندی کے بعد سے مجموعی طور پر یہ تیسرا موقع ہے کہ شمالی اور جنوبی کوریائی رہنماؤں کی آپس میں کوئی ملاقات ہوئی۔ جاپان، چین اور روس نے اس ملاقات کو خطے میں قیام امن کے لیے اہم قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters
مذاکرات جاری رہیں گے
اس سمٹ کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک تمام شعبوں میں مذاکراتی عمل جاری رکھیں گے اور اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ دونوں ممالک کے مابین طے پانے والے تمام بین الاقوامی معاہدوں پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا اور دونوں ریاستوں کے مابین سفری پابندیوں کو ختم کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔
تصویر: Reuters/Korea Summit Press Pool
ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی، کم
شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن نے کہا ہے کہ ان کا ملک ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو نہیں دہرائے گا۔ اس سمٹ کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق کم جونگ اُن نے کہا ہے کہ خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک بنانے کے لیے پیونگ یانگ حکومت مکمل تعاون کرے گی۔ طے پایا ہے کہ دونوں ممالک اس تناظر میں جامع مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔ تاہم اس بارے میں تفصیلات عام نہیں کی گئیں۔
تصویر: KOCIS
مون جے اِن شمالی کوریا جائیں گے
اس سمٹ کے بعد جنوبی کوریائی صدر کے دفتر کی طرف سے بتایا گیا کہ صدر مون جے اِن شمالی کوریا کا دورہ کریں گے۔ ممکنہ طور پر وہ رواں برس موسم خزاں میں یہ دورہ کریں گے، جہاں وہ شمالی کوریائی رہنما کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ مون جے اِن کے اس آئندہ جوابی دورے کو بھی دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/Alexander Freund
مقامی آبادی خوش
کم جونگ اُن کی جنوبی کوریا آمد پر کوریائی باشندوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے پہلی مرتبہ کم کو دیکھا اور براہ راست سنا۔ اس موقع پر کئی افراد نے خصوصی لباس بھی زیب تن کر رکھا تھا۔ دونوں سربراہان نے جنوبی کوریائی علاقے میں واقع سرحدی گاؤں پان مُون جوم میں قائم ’پیس ہاؤس‘ یا ’ایوان امن‘ میں ملاقات کی۔
تصویر: DW/A. Freund
11 تصاویر1 | 11
کم جونگ ال کے سات بچوں میں کم یو جونگ سب سے چھوٹی ہیں۔ کم جونگ اُن اور کم یو جونگ کو ابتدائی طور پر گھر پر پڑھایا گیا تھا۔ بعدازاں ان دونوں نے سوئس وفاقی شہربیرن کے قریب دو اسکولوں میں تعلیم حاصل کی۔
کم یو جونگ پہلی مرتبہ اس وقت نظروں میں آئیں، جب 2010ء میں انہیں اپنے والد کی سیکرٹری کے ہمراہ دیکھا گیا۔ اس کے بعد وہ مختلف عہدوں پر فائز رہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کی شادی چوئے سونگ سے ہوئی ہے، جو چوئے روینگ ہے کے صاحبزادے ہیں۔ چوئے روینگ ہے کو بھی شمالی کوریا کے ایک ممکنہ سربراہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ٹرمپ اور شمالی کوریائی رہنما کارٹونسٹوں کے ’پسندیدہ شکار‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریائی رہنما کِم جونگ اُن ایک دوسرے کو جوہری حملوں کی دھمکیاں دیتے ہوئے خوف اور دہشت پھیلا رہے ہیں لیکن کارٹونسٹ ان دونوں شخصیات کے مضحکہ خیز پہلو سامنے لا رہے ہیں۔
تصویر: DW/Gado
’میرا ایٹمی بٹن تم سے بھی بڑا ہے‘
بالکل بچوں کی طرح لڑتے ہوئے شمالی کوریا کے رہنما نے کہا کہ ایٹمی ہتھیار چلانے والا بٹن ان کی میز پر لگا ہوا ہے۔ جواب میں ٹرمپ نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے پاس بھی ایک ایٹمی بٹن ہے اور وہ تمہارے بٹن سے بڑا ہے‘۔
تصویر: Harm Bengen
ہیئر اسٹائل کی لڑائی
دونوں رہنماؤں کے ہیئر اسٹائل منفرد ہیں اور اگر ایک راکٹ پر سنہری اور دوسرے پر سیاہ بال لگائے جائیں تو کسی کو بھی یہ جاننے میں زیادہ دقت نہیں ہو گی کہ ان دونوں راکٹوں سے مراد کون سی شخصیات ہیں۔
تصویر: DW/S. Elkin
اگر ملاقات ہو
اگر دونوں رہنماؤں کی ملاقات ہو تو سب سے پہلے یہ ایک دوسرے سے یہی پوچھیں گے، ’’تمہارا دماغ تو صحیح کام کر رہا ہے نا؟ تم پاگل تو نہیں ہو گئے ہو؟‘‘
تصویر: A. B. Aminu
ماحول کو بدبودار بناتے ہوئے
اس کارٹونسٹ کی نظر میں یہ دونوں رہنما کسی اسکول کے ان لڑکوں جیسے ہیں، جو ماحول کو بدبودار کرنے کے لیے ایک دوسرے سے شرط لگا لیتے ہیں۔