کِم جونگ اُن نے پالیسیوں کی ناکامی کااعتراف کر لیا
6 جنوری 2021
شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کِم جونگ اُن نے کہا ہے کہ 'تقریباً تمام شعبوں میں بڑی حد تک‘ ملک کے اقتصادی اہداف پورے نہیں ہوسکے۔ اس اعتراف کو ایک غیر معمولی واقعہ قرار دیا جارہا ہے۔
اشتہار
شمالی کوریا کے رہنما نے حکمراں جماعت کی پانچ برس کے بعد منعقدہ اعلی سطحی میٹنگ (کانگریس) میں اعتراف کیا کہ ملک کی اقتصادی پالیساں ناکام رہی ہیں۔ کِم جونگ اُن کے اس اعتراف کو ایک غیر معمولی واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔
کوریائی سنٹرل نیوز ایجنسی (کے سی این اے) نے بتایا کہ کوریا کے سپریم لیڈر کی طرف سے اقتصادی پالیسیوں کی ناکامی کے اعتراف کے بعد اب امید ہے کہ حکمراں جماعت میٹنگ میں نئی اقتصادی پالیسیاں پیش کرے گی۔
کے سی این اے کے مطابق کِم جونگ اُن نے کہا کہ سن 2016 کی میٹنگ میں جو اہداف مقرر کیے گئے تھے وہ 'تقریباً تمام شعبوں میں بڑی حد تک پورے نہیں ہوسکے۔‘ انہوں نے مزید کہا ”ملک کو اس تکلیف دہ سبق کا اعادہ نہیں کرنا چاہئے۔"
شمالی کوریا کے سپریم لیڈر نے گو کہ پارٹی کی 'شاندار کامیابیوں‘ کا ذکربھی کیا تاہم انہوں نے کہا کہ ”ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے اہداف میں سنگین تاخیر ہورہی ہے۔"
میٹنگ سے توقعات
حکمراں ورکرز پارٹی کی میٹنگ پیونگ یانگ میں منگل کے روز شروع ہوئی۔ سرکاری میڈیا نے بدھ کے روز خبر دی ہے کہ اس کانگریس میں 4750 مندوبین اور 2000 مشاہدین شرکت کررہے ہیں۔ اس میٹنگ میں آئندہ پانچ برسوں کے لیے ملک کے اقتصادی پروگرام کا نیا خاکہ پیش کیا جائے گا۔
اشتہار
میٹنگ میں کِم جونگ اُن کی جانب سے قیادت میں بعض تبدیلیوں کا اعلان بھی متوقع ہے۔ ان کی بہن کم یو جنگ کو نئی ذمہ داریاں سپرد کی جا سکتی ہیں جبکہ بجٹ، تنظیم سازی اور آڈٹ جیسے امور پر بھی اہم فیصلے متوقع ہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شمالی کوریا اس اہم میٹنگ کا استعمال امریکا کے نومنتخب صدر جو بائیڈن کو پیغام دینے کے لیے بھی کرے گا۔ جو بائیڈن شمالی کوریا کے حوالے سے صدر ڈونلد ٹرمپ کے سخت رویے کے برعکس نئے سفارتی اپروچ اپنا سکتے ہیں۔
کِم جونگ اُن نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا کہ ملک نے اپنے عالمی وقار میں اضافہ کرکے'غیر معمولی‘ کامیابی حاصل کی ہے۔ ان کا اشارہ امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ سفارتی مذاکرات اور سن 2017 میں بین البراعظمی بیلسٹک میزائلوں کے کامیاب تجربات کی جانب تھا۔ یہ امریکا کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اقتصادی تبدیلیاں
سن 2016 میں منعقدہ پارٹی کانگریس، شمالی کوریا کی تقریباً 40 سالہ تاریخ میں اپنی نوعیت کی پہلی میٹنگ تھی جس نے ملک کے رہنما کے طورپر اور خاندانی حکومت کے جانشین کے طور پر کِم جونگ اُن کی حیثیت کو پختہ کردیا۔
گزشتہ برس شمالی کوریا نے اپنے پانچ سالہ اقتصادی منصوبے کو بڑی خاموشی کے ساتھ سرد خانے میں ڈال دیا کیوں کہ معیشت کو متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑرہا تھا اور اقتصادی اہداف کے حصول میں 'کافی تاخیر‘ ہورہی تھی۔ سن 2020 میں ملک میں آنے والے متعدد سیلاب اور سمندری طوفانوں سے کھیتوں، مکانات اور ملک کے بنیادی ڈھانچے کو کافی نقصان پہنچا تھا۔
کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے صورت حال مزید ابتر ہوگئی اور پہلے سے ہی الگ تھلگ شمالی کوریا کو اپنی سرحدوں کو دنیا کے دیگر ملکوں کے لیے بند کرنا پڑا۔ اس کا سب سے زیادہ اثر سب سے بڑے تجارتی پارٹنر چین کے ساتھ تجارت میں دیکھنے کو ملا۔ دونوں ملکوں کے درمیان سن 2020 کے ابتدائی گیارہ مہینوں میں تجارت کا حجم تقریباً 80 فیصد گھٹ گیا۔
شمالی کوریا کا دعوی ہے کہ اس کے یہاں کووڈ انیس کا ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا تاہم ماہرین کوان دعووں پر شبہات ہیں۔
ج ا/ (اے ایف پی، اے پی)
ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ اُن کی تین ملاقاتیں
امریکی صدر اور شمالی کوریائی لیڈر گزشتہ تقریباً ایک سال میں تین مرتبہ آپس میں ملاقات کر چکے ہیں۔ ان میں سے پہلی ملاقات سنگاپور، دوسری ہنوئے اور تیسری جزیرہ نما کوریا کے غیر فوجی علاقے میں ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency
شمالی کوریائی سرزمین پر پہنچنے والے پہلے امریکی صدر
تیس جون 2019ء کو ہونے والی یہ ملاقات اس لیے بھی ایک تاریخی واقعہ تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ یوں ایسے پہلے امریکی صدر بن گئے، جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں ہی شمالی کوریائی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ ٹرمپ سیئول سے ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے اس ملاقات کے مقام پر پہنچے تھے۔
تصویر: Reuters/K. Lamarque
پانمنجوم میں شمالی کوریائی سرزمین پر قدم رکھتے ہوئے ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شمالی کوریائی لیڈر کم جونگ اُن نے جنوبی کوریائی حدود میں خیر مقدم کیا اور پھر انہیں لے کر اپنے ملک میں داخل ہو گئے۔ اس تصویر میں ٹرمپ کو شمالی کوریائی سرزمین پر قدم رکھنے والے پہلے امریکی صدر کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency
شاندار بہترین تعلقات
جزیرہ نما کوریا کے غیر فوجی علاقے میں پانمنجوم کے مقام پر ہونے والی اس ملاقات کے بعد کم جونگ اُن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر کے ساتھ تعلقات کو شاندار قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ انہی تعلقات کی بدولت مختلف امور سے متعلق پائی جانے والی مشکلات اور رکاوٹوں کو عبور کیا جا سکے گا۔
تصویر: AFP/Getty Images/B. Smialowski
حیران کن ملاقات کی دعوت
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ جزیرہ نما کوریا کو منقسم کرنے والی اس حد کو عبور کرنا اُؑن کے لیے ایک اعزاز ہے اور یہ تعلقات کو بہتر بنانے کی جانب ایک بڑا قدم بھی ہو گا۔ انہوں نے اس ملاقات کو بہترین دوستی سے بھی تعبیر کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Smialowski
دوسری ملاقات: ویتنامی دارالحکومت ہنوئے میں
امریکی صدر اور شمالی کوریائی لیڈر کی دوسری ملاقات کی میزبانی ویتنام کو حاصل ہوئی۔ دونوں لیڈروں کے قیام اور ملاقات کے مقام کے لیے انتہائی سخت اور غیر معمولی سکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔ کم جونگ اُن حسب معمول بذریعہ ٹرین ویتنام پہنچے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Vucci
ہنوئے سمٹ بے نتیجہ رہی
ٹرمپ اور اُن کی ہنوئے میں ملاقات ناکام ہو گئی تھی۔ اس ملاقات میں شمالی کوریائی لیڈر نے اپنے ملک کے خلاف عائد مختلف پابندیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ پابندیاں فوری طور پر امریکی صدر ختم نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ان میں سے بیشتر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی طرف سے لگائی گئی تھیں۔
تصویر: Reuters/L. Millis
سنگاپور سمٹ
ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ اُن کے درمیان سنگاپور میں ہونے والی پہلی ملاقات تو ایک بار اپنی منسوخی کے بھی بہت قریب پہنچ گئی تھی۔ پھر دونوں لیڈروں کے رابطوں سے یہ ممکن ہوئی۔ یہ ملاقات بارہ جون سن 2018 کو ہوئی تھی۔ کسی بھی امریکی صدر اور شمالی کوریائی لیڈر کے درمیان یہ پہلی ملاقات تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Wallace
سنگاپور سمٹ: مفاہمت کی یادداشت پر دستخط
امریکی صدر اور شمالی کوریا کے لیڈر کے درمیان سنگاپور ملاقات کے بعد دوطرفہ تعلقات اور معاملات کو بہتر بنانے کی یادداشت پر دستخط بھی کیے گئے تھے۔ یادداشت کی اس دستاویز کا تبادلہ پیچھے کھڑے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور شمالی کوریائی خاتون اہلکار کے درمیان ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/Ministry of Communications