شمالی کوریا کا ’بیلسٹک میزائل کا نیا تجربہ ناکام‘
16 اپریل 2017جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول سے ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق جنوبی کوریائی حکومت اور امریکی فوجی ذرائع نے تصدیق کر دی ہے کہ اس کمیونسٹ ریاست کی طرف سے کی گئی بیلسٹک میزائل کے تجربے کی تازہ ترین کوشش ناکام رہی۔
بحرالکاہل میں امریکی فوجی دستوں کی کمان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا نے اپنے اس نامعلوم طرز کے بیلسٹک میزائل کا تجربہ سِنپو کے بندرگاہی شہر سے کیا، لیکن یہ میزائل فائر کیے جانے کے ’فوراﹰ بعد فضا میں پھٹ‘ گیا۔
شمالی کوریا جوابی ’جوہری حملے کے لیے تیار‘
شمالی کوریا پر پُرامن مذاکرات ضروری ہیں، چینی صدر
ملائیشیا سے شمالی کوریا کو رقوم کی منتقلی؟
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ ابھی ایک روز پہلے ہی شمالی کوریا نے اپنے بانی کِم اِل سُنگ کے 105 ویں یوم پیدائش کے موقع پر پیونگ یانگ میں اہتمام کردہ ایک بہت بڑی فوجی پریڈ میں اپنے ہتھیاروں کی بھرپور نمائش کی تھی، جس میں یہ بیلسٹک میزائل بھی شامل تھا۔ اس پریڈ کے موقع پر موجودہ شمالی کوریائی رہنما اور کِم اِل سُنگ کے پوتے کِم جونگ اُن بھی موجود تھے۔
شمالی کوریا میں پیونگ یانگ حکومت نے یہ تازہ ترین لیکن ناکام ہو جانے والا بیلسٹک میزائل ٹیسٹ ایک ایسے وقت پر کیا ہے، جب امریکی نائب صدر مائیک پینس آج اتوار ہی کے روز جنوبی کوریا کے ایک دورے پر سیئول پہنچ رہے ہیں۔
امریکی حکومتی ذرائع کے مطابق مائیک پینس خطے کا مجموعی طور پر یہ چار روزہ دورہ اس مقصد کے تحت کر رہے ہیں کہ جزیرہ نما کوریا پر کمیونسٹ کوریا کی مسلسل جارحانہ پالیسیوں کے خلاف اس علاقے میں واشنگٹن کے اتحادی ملکوں کو امریکا کی طرف سے مکمل حمایت اور تعاون کی یقین دہانی کروا سکیں۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق نائب صدر مائیک پینس آج جیسے ہی الاسکا سے سیئول کے لیے روانہ ہوئے، تو شمالی کوریا کے نئے میزائل تجربے کی خبر ملنے پر ان کو فوری طور پر اطلاع کر دی گئی۔
اس بارے میں امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ امریکی صدر اور ان کے فوجی مشیروں کی ٹیم کو بھی شمالی کوریا کے اس نئے تجربے سے آگاہ کر دیا گیا۔ میٹس نے اس بارے میں مزید کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔
اسی دوران مائیک پینس کے دورہ جنوبی کوریا سے قبل ایک اعلیٰ امریکی فوجی اہلکار نے صحافیوں کو بتایا کہ کمیونسٹ کوریا کی طرف سے مسلسل بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر امریکا اپنے طور پر پہلے ہی ’فوجی امکانات کا جائزہ‘ بھی لے رہا ہے۔