شمالی کوریا کی مذاکراتی دعوت قبول نہیں، سیول حکام
6 جنوری 2011امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے شمالی کوریا اسٹیفن بوسورتھ اس وقت چین اورجاپان کے دورے پر ہیں۔ بیجنگ پہنچنے پرانہوں نے چینی اور جنوبی کوریا کے نمائندوں سے ایک ملاقات کی۔ اس بات چیت کا مقصد یہ تھا کہ دونوں کوریاؤں کے مابین کشیدگی کو کم کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی اس بات چیت میں یہ بھی غورکیا گیا کہ کس طرح شمالی کوریا کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے باز رکھا جائے۔
واشنگٹن حکام چین سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ شمالی کوریا پر اپنا جوہری پروگرام ترک کرنے کے لیے دباؤ ڈالے۔ اسٹیفن بوسورتھ بیجنگ میں چینی حکام سے مزید چیت کرنے کے بعد آج جاپان روانہ ہو جائیں گے۔ شمالی کوریا اور چین خطے میں حلیف ممالک تصور کیے جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق شمالی کوریا کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش اسی تناظر میں میں اٹھایا جانے والا ایک قدم ہے۔ سیول حکام کا کہنا ہے کہ یہ صرف پروپیگنڈا ہے اور اس میں سنجیدہ رویہ کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہا۔
گزشتہ برس نومبر میں شمالی کوریا کی جانب سے متنازعہ پانیوں میں جنوبی کوریا کے ایک ساحلی علاقے پر بمباری کی گئی تھی۔ سیول حکام کا کہنا ہے، ’’پیونگ یانگ نے ابھی تک اس در اندازی پر نہ تو شرمندگی کا اظہارکیا ہے اور نہ ہی معافی مانگی ہے۔ ان حالات میں مذاکرات کی پیشکش ایک ڈھونگ ہے۔‘‘ مزید یہ کہ شمالی کوریا کا ’’رویہ نہ تو ذمہ دارانہ ہے اور نہ ہی یہ پیشکش صحیح انداز میں کی گئی ہے۔‘‘
مارچ 2010ء میں جنوبی کوریا کے ایک بحری جہاز کی غرقابی اور اس کے ساحلی علاقے پر بمباری کا الزام پیونگ پانگ پر عائد کیا جاتا ہے۔ تاہم شمالی کوریا ان الزامات کو شروع سے ہی مسترد کرتا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اسی وجہ سے خطے میں کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ماہرین مزید کہتے ہیں کہ شاید اسی دباؤ میں آ کر شمالی کوریا نے مذاکرات کی دعوت دی ہے۔
جنوبی کوریا کے ایک اخبار نے پیونگ یانگ کی تازہ پیشکش پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے، ’’اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آیا جنوبی اور شمالی کوریا کا ایک دوسرے کو مذاکرات کی دعوت دینا اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا ہے یا یہ کشیدہ حالات کے مزید کشیدہ ہونے تک کے درمیان کا ایک وقفہ ہے۔‘‘ اس اخبار نے مزید لکھا ہےکہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ شمالی کوریا نے ’جارحیت کے بعد بات چیت پرآمادگی‘ ظاہر کی ہو۔
ابھی حال ہی میں اپنے سال نو کے پیغام میں جنوبی کوریائی صدر لی میونگ باک نے بھی حالات کو بہتر بنانےکے لیے کمیونسٹ کوریا کو مکالمت کی دعوت دی تھی۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: مقبول ملک