شمالی کوریا کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جا سکتا ہے، امریکا
عاطف بلوچ، روئٹرز
6 جولائی 2017
امریکا نے عندیہ دے دیا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل پروگرام کے خاتمے کی خاطر طاقت کا استعمال کرنے کے لیے تیار ہے۔ جرمن چانسلر نے البتہ اس کمیونسٹ ریاست پر پابندیاں عائد کرنے کی حمایت کی ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ اقوام متحدہ کے لیے امریکی سفیر نِکی ہیلی نے بدھ پانچ جولائی کو کہا کہ شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل تجربات کو روکنے کی خاطر امریکا عسکری طاقت استعمال کرنے کو تیار ہے۔ تاہم اس سفارتکار نے واضح کیا کہ اس کمیونسٹ ریاست کے خلاف کسی فوجی آپریشن سے قبل واشنگٹن حکومت اس تنازعہ کے حل کے لیے عالمی سفارتی کوششوں کو ترجیح دے گی۔
شمالی کوریا نے منگل کے دن ہی ایک ایسے نئے بین البراعظمی میزائل کا تجربہ کیا ہے، جو مبینہ طور پر الاسکا تک مار کر سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک ہنگامی اجلاس میں نِکی ہیلی نے اس پیشرفت پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے شمالی کوریا کے خلاف سخت پابندیاں عائد کرنے کے لیے ایک نئی قرار داد بھی پیش کی۔
اس موقع پر امریکی خاتون سفارتکار نے کہا کہ شمالی کوریا کے اعمال کے باعث سفارتی کوششوں کا راستہ بہت تیزی کے ساتھ بند ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر سفارتی کوششیں کارگر ثابت نہیں ہوتیں تو امریکا اپنے اور اپنے اتحادیوں کی دفاع کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے چین پر زور دیا کہ وہ اس بحران کے خاتمے کی خاطر اپنا اثر ورسوخ استعمال کرے۔
شمالی کوریا کے رہنما کم یونگ ان اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برخلاف اپنا جوہری اور میزائل پروگرام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جاپان، جنوبی کوریا اور دیگر عالمی طاقتوں کا کہنا ہے کہ پیونگ یانگ حکومت کو اپنے جوہری عزائم کو محدود کر دینا چاہیے تاہم شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ اس کے یہ پروگرام دفاعی نوعیت کے ہیں۔ شمالی کوریا متعدد مرتبہ امریکا کو نشانہ بنانے کی دھمکی بھی دے چکا ہے۔
کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم؟
دنیا بھر میں اس وقت نو ممالک کے پاس قریب سولہ ہزار تین سو ایٹم بم ہیں۔ جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے مطالبات کے باوجود یہ تعداد کم نہیں ہو رہی۔ دیکھتے ہیں کہ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: AP
روس
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سِپری) کے مطابق جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے معاملے میں روس سب سے آگے ہے۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سابق سوویت یونین کی جانشین ریاست روس کے پاس اس وقت آٹھ ہزار جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kolesnikova
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس آج بھی 7300 ایٹم بم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 300 بتائی جاتی ہے۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 250 ایٹم بم ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 225 جوہری ہتھیار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kaminski
پاکستان
پاکستان کے پاس ایک سو سے ایک سو بیس کے درمیان جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سن 1998ء میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ پاکستان اور بھارت ماضی میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور اسلام آباد حکومت کے مطابق اس کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters
9 تصاویر1 | 9
دوسری طرف جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا نیا تجربہ کرنے پر پیونگ یانگ کے خلاف سخت پابندیاں عائد کی جانا چاہییں۔ بدھ کے دن برلن میں میرکل کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں مون نے اس کمیونسٹ ریاست کے اس تجربے کو ایک ’بڑا خطرہ‘ قرار دیا۔ اس موقع پر میرکل نے یہ بھی کہا کہ برلن حکومت شمالی کوریا کے جوہری عزائم کے خلاف ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ جزیرہ نما کوریا پر امن قائم ہو جائے گا۔