شمالی یورپی ممالک میں رواں ماہ کے دوران جوہری تابکاری میں معمولی اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ ڈچ ماہرین نے اضافے کی ممکنہ وجہ مغربی روس میں موجود نیوکلیئر پاور پلانٹس کو قرار دیا ہے۔
اشتہار
نارڈک نیوکلیئر سیفٹی ایجنسیوں نے حالیہ دنوں کے دوران فن لینڈ اور شمالی سکینڈے نیویا میں ریڈیو ایکٹیو آئیسوٹوپس میں اضافہ نوٹ کیا۔ سویڈن، ناروے اور فن لینڈ کے ماہرین اس اضافے کا محرک نہیں جان پائے۔ نارڈک نیوکلیئر سیفٹی اداروں کے مطابق تابکاری میں اضافے کا درجہ انسانی صحت کے لیے خطرناک نہیں ہے۔
تاہم ڈچ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ تابکاری میں اضافہ مغربی روس میں موجود پاور پلانٹ میں کسی ممکنہ خرابی کے باعث ہوا ہے۔ ہالینڈ کے عوامی صحت کے ادارے کے مطابق ڈیٹا کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے تابکاری کا مرکز 'مغربی روس‘ میں ہے اور بظاہر یہ 'جوہری پاور پلانٹ میں فیول ایلیمنٹ میں ہونے والی کسی خرابی‘ کے باعث شروع ہوا۔
روسی جوہری پاور پلانٹ ٹھیک ہیں، روس
روس کے سرکاری نیوکلئر پاور آپریٹر 'روسنرگواٹوم‘ نے ڈچ ماہرین کے خدشات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے تمام جوہری پاور پلانٹ بالکل درست کام کر رہے ہیں۔
روسی نیوز ایجنسی تاس نے ہفتے کے روز روسنرگواٹوم کے ترجمان کے حوالے سے بتایا کہ جون کے مہینے میں سینٹ پیٹرزبرگ کے لینن گراڈ اور مومانسک شہر کے قریب قائم کولا جوہری پاور پلانٹ میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔
اس برس تک کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم ہیں؟
سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد کم ہوئی ہے لیکن جوہری صلاحیت رکھنے والے نو ممالک اپنے ایٹم بموں کو جدید اور مزید مہلک بھی بنا رہے ہیں۔ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: Getty Images/AFP/J. Samad
روس
سپری کے مطابق 6,375 جوہری ہتھیاروں کے ساتھ روس سب سے آگے ہے۔ روس نے 1,570 جوہری ہتھیار نصب بھی کر رکھے ہیں۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سن 2015 میں روس کے پاس آٹھ ہزار جوہری ہتھیار تھے، جن میں سے متروک ہتھیار ختم کر دیے گئے۔ سپری کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس اور امریکا جدید اور مہنگے جوہری ہتھیار تیار کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Anotonov
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس اس وقت 5,800 ایٹمی ہتھیار ہیں، جن میں 1,750 تعنیات شدہ بھی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ جوہری ہتھیاروں کی تجدید کر رہی ہے اور امریکا نے 2019 سے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کے بارے میں معلومات عام کرنے کی پریکٹس بھی ختم کر دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Riedel
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 320 ایٹم بم ہیں اور سپری کے مطابق چین اس وقت جوہری اسلحے کو جدید تر بنا رہا ہے۔ نصب شدہ ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں معلوات دستیاب نہیں ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture alliance/Xinhua/L. Bin
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 290 بتائی جاتی ہے جن میں سے 280 نصب شدہ ہیں۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔ سپری کے مطابق فرانس کسی حد تک اب بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں معلومات عام کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 215 جوہری ہتھیار ہیں، جن میں سے 120 نصب ہیں۔ برطانیہ نے اپنا جوہری ذخیرہ کم کر کے 180 تک لانے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Poa/British Ministry of Defence/T. Mcdonal
پاکستان
پاکستان کے پاس 160 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سپری کے مطابق سن 1998 میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان نے اپنے ہتھیاروں کو متنوع بنانے اور اضافے کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مطابق ان کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974 میں پہلی بار اور 1998 میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس 150 ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔ بھارت اور پاکستان اپنے میزائل تجربات کے بارے میں تو معلومات عام کرتے ہیں لیکن ایٹمی اسلحے کے بارے میں بہت کم معلومات فراہم ی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس مبیبہ طور پر قریب 90 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیل اب بھی اپنے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کوئی بھی معلومات عام نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Kahana
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
شمالی کوریا 30 سے 40 جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ گزشتہ برس صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان کی ملاقات کے بعد شمالی کوریا نے میزائل اور جوہری تجربات روکنے کا اعلان کیا تھا، لیکن پھر اس پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ دستیاب معلومات کے مطابق اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں بھی ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/KCNA/Korea News Service
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters
12 تصاویر1 | 12
یورپی جوہری پاور پلانٹس بھی 'ٹھیک ہیں‘
یہ امر بھی اہم ہے کہ صرف مغربی روس ہی میں نہیں بلکہ یورپ کے کئی دیگر ممالک میں بھی جوہری توانائی کے مراکز اب بھی موجود ہیں۔
ویانا میں موجود اقوام متحدہ کی اٹامک انرجی ایجنسی کے مطابق مغربی یورپ میں 108 جوہری ری ایکٹرز ہیں جب کہ وسطی اور مشرقی یورپ میں بھی 73 ری ایکٹرز ہیں۔
فن لینڈ اور سویڈن میں بھی جوہری توانائی کے پلانٹس کام کر رہے ہیں تاہم ان ممالک کے مطابق ان کے تمام نیوکلیئر پاور پلانٹس میں بھی کوئی فنی خرابی سامنے نہیں آئی۔
فرانس کا قدیم ترین نیوکلیئر پاور پلانٹ بند
جرمنی سمیت یورپ کے کئی دیگر ممالک میں توانائی کے حصول کے لیے جوہری پاور پلانٹس پر انحصار ختم کیا جا رہا ہے اور جوہری توانائی کے مراکز بند کیے جا رہے ہیں۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق فرانس کا قدیم ترین نیوکلیئر پاور پلانٹ منگل تیس جون کے روز بند کر دیا جائے گا۔ ماحول کے لیے سرگرم کارکنوں نے اس خبر پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ جوہری توانائی کا یہ مرکز فرانسیسی شہر فیسن ہائم میں سن 1977 میں تعمیر کیا گیا تھا۔
مشرقی فرانس میں جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد کے قریب قائم اس نیوکلیئر پاور پلانٹ سے تابکار مواد ہٹانے میں مزید تین برس لگ سکتے ہیں۔
سن 2011 میں فوکوشیما حادثے کے بعد ماحول دوست کارکنوں نے فیسن ہائم پاور پلانٹ ختم کرنے کے لیے مہم شروع کی تھی۔ تاہم فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے سن 2018 میں اس جوہری مرکز کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔