شمسی لیمپ نے غریبوں کی زندگی میں روشنی بھر دی
27 جنوری 2011کینیا کے مغربی علاقے سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کا نام ایوانس واڈانگو ہے اور اس کی عمر ابھی 25 سال بھی نہیں ہے۔ اسے یاد ہے کہ کس طرح اس کا بچپن مٹی کے تیل سے جلنے والےلیمپ کی روشنی میں اسکول کا ہوم ورک کرنےکوشش میں گزر رہا تھا۔ایسے میں اگر گھر میں مٹی کا تیل ختم ہو جاتا تو ہوم ورک نہ کر سکنے کی پاداش میں اسکول میں پڑنے والی مار بھی سہنا پڑتی تھی۔ کیروسین لیمپ کے قریب بیٹھنے سے اس سے اٹھنے والے دھوئیں نے اس نوجوان کی بینائی بھی متاثر کر دی تھی۔ان حالات کے باوجود اُس نے نہ صرف اسکول کی تعلم مکمل کی بلکہ یونیورسٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہو ا۔
اعٰلی تعلیم حاصل کرنے کے دوران اس نے سوچنا شروع کیا کہ آخر کس طرح وہ اپنے گاؤں کی طرح ملک کے دوسرے دیہات میں بسنے والے غریب بچوں کے حالات بہتر بنا سکتا ہے۔گو کہ کینیا ،مشرقی افریقہ کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے تاہم اس کی آدھی سے زیادہ آبادی یومیہ ایک ڈالر یا اس سے بھی کم کی آمدنی پر گزر بسر کرتی ہے۔
دل میں لوگوں کی خدمت کا جذبہ لیے اس نوجوان نے اپنے لیے آخر انجینئرنگ کے شعبے کا انتخاب کیا اور محض 19 سال کی عمر میں شمسی توانائی سے جلنے والا لیمپ ایجاد کیا۔ 2004ء میں اس ایجاد سے لے کر اب تک تقریباﹰ 15 ہزار سے زائد یہ لیمپ بنائے جا چکے ہیں اور واڈونگوکا عزم ہے کہ 2015 ء تک یہ تعداد ایک لاکھ تک لے جائے گا۔
خبر رساں اجینسی اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے وہ کہتا ہے،" میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ اتنے بڑے پیمانے پر کامیاب ہو سکتا ہے۔ میں تو بس ایک لیمپ اپنی دادی کے لیے بنانا چاہتا تھا"۔ کینیا کے سیاسی طبقے کو موردالزام ٹھہراتے ہوئے واڈونگو کہتا ہےکہ سیاسی طبقہ صرف یہ چاہتا ہے کہ لوگ ہمیشہ غریب ہی رہیں تاکہ سیاست دان ہمیشہ طاقتور اور با اثر رہ سکیں۔
واڈانگو کے لیے یہ صرف لیمپ نہیں ہیں بلکہ ان کی نظر میں لوگوں کو غربت سے نکالنے کا ایک طریقہ ہے۔ انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر "Use solar , Save Lives" یعنی ' شمسی توانائی کا استعمال کریں، زندگی بچائیں' کے نام سے ایک پیش قدمی شروع کر رکھی ہے۔ اس منصوبے کے تحت انہوں نے ایسی کمیونیٹیز کا پتہ لگایا جو روشنی کے حصول کے لیے مٹی کے تیل کے لیمپ پر انحصار کرتی تھیں۔ واڈانگو کی ٹیم نے شمسی توانائی کے 30 لیمپ ان کمیونیٹیز کی ایسوسیشن جن میں زیادہ تر خواتین کے گروپ شامل تھے، کے حوالے کیے اور ان کے علاقوں کو اس بات کی جانب حوصلہ دیا کہ وہ مٹی کا تیل خریدنے کے لیے بچائی گئی رقوم کو گروپ کے پاس جمع کروایں اور اس طرح حاصل ہونے والی رقم کو مختلف منصوبے مثلاﹰ مچھلیوں یا خرگوش کی افزائش جیسے منصوبوں پر لگائیں۔
واڈانگو نے اس منصوبے کی کامیابی کے بعد ہمسایہ ملک یوگنڈا میں بھی اپنے پراجیکٹ شروع کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔ اس کام کے لیے وہ نہ صرف کینیا بلکہ افریقہ بھر سے آئے لوگوں کو تربیت دینے کا سلسہ شروع کر چکا ہے ۔ اس کام کے زریعے اُس نے نہ صرف ان مفلس لوگوں کی خدمت کی ہے جو مٹی کا تیل خریدنے کے لیے اضافی بچت کرنے پر مجبور تھے بلکہ نوجوانوں کے لیے روزگار بھی فراہم کیا ہے۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ
ادارت: کشور مصطفٰی