شمسی پینلز: یورپی اور چینی کمپنیوں کے تنازعے میں شدت
31 جولائی 2012ان یورپی اداروں کا مطالبہ ہے کہ شمسی پینلز کے کاروبار میں مقابلہ بازی ضرور ہونی چاہیے لیکن منصفانہ بنیادوں پر۔ ان اداروں کا الزام ہے کہ چینی اداروں کو اربوں کے حساب سے قرضے اور سرکاری اعانتیں مل رہی ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے شمسی پینلز کو اُن کی تیاری پر آنے والی لاگت سے بھی کم قیمت پر یورپی منڈی میں فروخت کے لیے پیش کر پا رہے ہیں۔ ان یورپی اداروں کا مطالبہ ہے کہ یورپی یونین کو مسابقت کے منصفانہ حالات پیدا کرنے چاہییں اور ضرورت پڑنے پر چینی اداروں کی مصنوعات پر حفاظتی محصولات بھی عائد کرنے چاہییں۔
ای یُو پرو سَن (EU ProSun)نامی تحریک کی نمائندگی کرتے ہوئے ممتاز ادارے سولر ورلڈ سے وابستہ میلان نیشکے(Milan Nitzschke) بتاتے ہیں:’’معاملہ شمسی سیلز سے بجلی بنانے کے شعبے میں چینی اداروں کے لاگت سے بھی کم قیمت پر مصنوعات کی فروخت کا ہے۔ چینی ادارے یہ شمسی پینلز اِن کی تیاری پر آنے والی لاگت سے تقریباً آدھی قیمت پر فروخت کر رہے ہیں۔ ایسے میں کوئی بھی ادارہ اُن کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل ہی نہیں سکتا۔‘‘
یورپی کمیشن نے فوری طور پر اس درخواست کے دائر کیے جانے کی تصدیق نہیں کی تھی تاہم کمیشن کے ایک ترجمان جو ہینن (Joe Hennon) نے کہا:’’مَیں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ اگر ڈمپنگ یعنی لاگت سے کم قیمت پر فروخت یا سرکاری اعانتوں کے حوالے سے کوئی درخواست دائر کی جاتی ہے تو ہم پنتالیس روز کے اندر اندر یہ فیصلہ سنا دیں گے کہ آیا ہم اس درخواست پر غور کریں گے یا نہیں۔‘‘
شمسی توانائی کے شعبے سے منسلک کاروباری اور صنعتی اداروں کو امید ہے کہ اُن کی درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی جائے گی۔ ایسی صورت میں کمیشن تحقیقات کرے گا اور 9 ماہ کے اندر اندر ایسے احکامات جاری کر سکتا ہے، جو چین سے آنے والے انتہائی سستے شمسی پینلز سے جزوی طور پر سخت پریشان یورپی صنعت کے لیے امید کی نئی کرن کے مترادف ہوں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ مہینوں کے دوران صرف جرمنی میں شمسی سیلز تیار کرنے والے بہت سے ادارے دیوالیہ ہو چکے ہیں، جن میں کیو سیلز(Q-Cells)، سووَیلو (Sovello)، سولون (Solon) اور فرسٹ سولر (First Solar)بھی شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق جرمنی میں فروخت ہونے والے 80 فیصد شمسی سیلز چین سے درآمد شُدہ ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چینی شمسی پینلز کی تیاری میں استعمال ہونے والا 60 فیصد میٹیریل، خواہ وہ پولی سلیکون کی شکل میں ہو، خصوصی شیشے کی شکل میں ہو یا مشینوں کی شکل میں، یہاں جرمنی سے جاتا ہے۔
دوسری جانب چینی ادارے اپنی بیجنگ حکومت سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اُنہیں اِن ممکنہ محصولات سے بچائے۔ یہ مطالبہ چینی حکومت کے ایوانوں تک پہنچ گیا ہے اور چینی وزارتِ تجارت نے یورپی صنعت کے تمام تر اعتراضات مسترد کر دیے ہیں۔ چینی وزارت کا کہنا ہے کہ چینی سولر مصنوعات کی قیمتوں میں کمی دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ شمسی سیلز کی تیاری میں استعمال ہونے والے مادے سلیکون کی قیمتیں گر جانے کی وجہ سے بھی ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ کا موقف ہے کہ جہاں 2008ء میں سلیکون کی قیمت تین سو ڈالر فی کلوگرام تھی، وہاں اب یہ صرف تیس ڈالر فی کلوگرام رہ گئی ہے۔
امریکی حکومت نے رواں سال کے اوائل سے ہی چین سے شمسی توانائی کی سستی ٹیکنالوجی پر تعزیری محصولات عائد کرنا شروع کر دیے ہیں۔
K. Kails,R. Breuer/aa/km