1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمس وَن، عرب صحراؤں میں شمسی بجلی گھر

23 فروری 2013

قطر میں منعقدہ حالیہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس ہو یا ابوظہبی میں قابل تجدید توانائیوں کی دو سال پہلے قائم ہونے والی عالمی ایجنسی IRENA کا ہیڈ کوارٹر ہو، خلیجی عرب ممالک میں متبادل توانائیوں کے لیے دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔

تصویر: Shams Power Company

متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی سے کوئی 140 کلومیٹر دور صحرا کے بیچوں بیچ سرزمین عرب کی گرم دھوپ میں دور دور تک آئینے چمکتے نظر آتے ہیں۔ یہ شمس وَن ہے، مشرق وسطیٰ کا پہلا تھرمل شمسی بجلی گھر، جہاں چھوٹی چھوٹی گاڑیاں وقفے وقفے سے اس کے اہم آلات اور پرزوں پر سے گرد اور ریت ہٹانے میں مصروف نظر آتی ہیں۔ یہ بجلی گھر بیس ہزار گھرانوں کو ماحول دوست بجلی فراہم کر سکے گا۔

تیل کی دولت سے مالا مال متحدہ عرب امارات نے یہ ہدف مقرر رکھا ہے کہ وہ سن 2020ء تک اپنی ضروریات کی سات فیصد توانائی قابل تجدید ذرائع سے حاصل کرے گا۔ ریاست دبئی میں یہ ہدف پانچ فیصد ہے۔ دنیا بھر میں مائع گیس کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک قطر سن 2030ء تک اپنی بیس فیصد ضروریات قابل تجدید ذرائع سے پوری کرنا چاہتا ہے جبکہ سعودی عرب نے سن 2032ء تک اپنی ضرورت کی ایک تہائی بجلی متبادل ذرائع سے حاصل کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔

شمس وَن کے مختلف آلات اور پرزوں پر سے گرد اور ریت ہٹانے کے لیے استعمال ہونے والی چھوٹی چھوٹی گاڑیاںتصویر: DW/I. Quaile

قابل تجدید توانائیوں کی دو سال پہلے قائم ہونے والی عالمی ایجنسی IRENA کا ہیڈ کوارٹر ابو ظہبی میں ہے۔ ڈوئچے ویلے سے باتیں کرتے ہوئے اس ایجنسی کے قائم مقام ڈائریکٹر جنرل فرانک وُوٹرز (Frank Wouters) نے بتایا کہ ابوظہبی کو ہیڈ کوارٹر بنانے کا فیصلہ بہت ہی اہم تھا۔ متحدہ عرب امارات نہ صرف خود کو معدنی تیل کے دور کے خاتمے کے لیے قبل از وقت تیار کر رہا ہے بلکہ وہ یہ بھی دکھا رہا ہے کہ متبادل توانائی کے شعبے میں طویل المدتی بنیادوں پر کیا کیا امکانات چھپے ہوئے ہیں۔

سعودی عرب کو بھی اس بات کا ادراک ہو گیا ہے کہ عالمی منڈی میں فی بیرل ایک سو ڈالر تک بکنے والے قیمتی ڈیزل کو جلانا زیادہ مہنگا پڑتا ہے، بجائے اُس شمسی توانائی کو استعمال کرنے کے، جو بہت بڑی مقدار میں موجود ہے۔

خلیجی عرب ریاستوں کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتے ہیں۔ گرم آب و ہوا کے حامل اس ملک میں عمارات کو ٹھنڈا رکھنے اور سمندر سے میٹھے پانی کے حصول کے لیے بہت بڑے پیمانے پر توانائی خرچ کرنا پڑتی ہے۔ متحدہ عرب امارات میں اب ایک طرف توانائی کے باکفایت استعمال کی کوششیں کرتے ہوئے بجلی کی طلب کو کم کرنے اور دوسری جانب ماحول دوست توانائیوں پر زیادہ سے زیادہ توجہ مرکوز کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔

عرب ملکوں میں یہ احساس بڑھنے لگا ہے کہ مہنگے ڈیزل کی بجائے قابل تجدید توانائیاں ماحول دوست بھی ہیں اور سستی بھیتصویر: DW/I. Quaile

متحدہ عرب امارات نہ صرف اپنے ہاں متبادل توانائیوں کو فروغ دے رہا ہے بلکہ وہ اسپین اور انگلینڈ جیسے ملکوں میں سورج اور ہوا سے چلنے والے منصوبوں میں سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے۔

گزشتہ چند برسوں سے خلیجی عرب ممالک میں موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ کی ضرورت زیادہ سے زیادہ محسوس کی جانے لگی ہے۔ سعودی عرب کو، جسے پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے، اب موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی شدت زیادہ سے زیادہ محسوس ہونے لگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے نہ صرف اپنی ضروریات کی بتیس فیصد بجلی متبادل ذرائع سے حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے بلکہ وہ قابل تجدید توانائیوں کے سلسلے میں تحقیقی منصوبوں پر بھی بے پناہ رقوم خرچ کر رہا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق مشرق وسطیٰ میں 2007ء اور 2011ء کے درمیانی عرصے میں توانائی کی کھپت میں بائیس فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اگلے پانچ برسوں میں اس شرح میں یقینی طور پر مزید اضافہ ہو گا۔ سورج اور ہواسے حاصل ہونے والی توانائی کی قیمتوں میں مسلسل کمی دیکھنے میں آ رہی ہے اور اس وجہ سے بھی خلیجی عرب ممالک میں یہ توانائیاں زیادہ سے زیادہ پُرکشش ہوتی جا رہی ہیں۔

I.Quaile/aa/aba

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں