شمیما بیگم کے نومولود بچے کا انتقال، برطانیہ تنقید کی زد میں
9 مارچ 2019
شام کے ایک حراستی مرکز میں موجود شمیما بیگم کا تین ہفتے کا بچہ انتقال کر گیا ہے۔ برطانیہ نے شمیما بیگم کی برطانوی شہریت چند روز قبل منسوخ کر دی تھی جس پر اب حکومت کو تنقید کا سامنا ہے۔
اشتہار
چار برس قبل برطانیہ سے فرار ہو کر شام میں دہشت گرد گروہ ’اسلامک اسٹيٹ‘ کی رکن بننے والی شميما بيگم کے نومولود بچے کا شام ميں انتقال ہو گيا ہے۔ سيريئن ڈيموکريٹک فورسز نے اس خبر کی تصدیق کر دی ہے۔ انيس سالہ شمیما بیگم نے چند روز قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ واپس برطانيہ جا کر اپنے بچے کی پرورش کرنا چاہتی تھيں۔ تاہم بدھ چھ مارچ کو برطانوی حکومت نے ان کی شہريت منسوخ کر دی تھی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اطلاع ہے کہ ان کا بيٹا نمونيا کی وجہ سے ہلاک ہوا۔ ’داعش کی دلہن‘ کے نام سے مشہور شميما بيگم کے ہاں يہ بيٹا گزشتہ ماہ ہی پيدا ہوا تھا۔ اس سے قبل بھی ان کے دو بچے بيماری و خوراک کی عدم دستيابی کے سبب ہلاک ہو چکے ہيں۔
برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے کے ترجمان نے کہا تھا کہ شمیما بیگم کی برطانوی شہریت ’ناقابل تردید ثبوت‘ اور سلامتی کی وجوہات کی بنا پر منسوخ کی گئی۔ اس فیصلے کے بعد نہ صرف برطانیہ بلکہ یورپ بھر میں یہ بحث شروع ہو گئی کہ دہشت گرد گروہ داعش کا حصہ بننے والے یورپی شہریوں اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ کیا کیا جائے۔
برطانیہ کی اپوزیشن لیبر پارٹی کے مطابق شمیما بیگم کو شام کے ایک ایسے حراستی مرکز میں تنہا چھوڑنا جہاں نومولود بچوں کے بچنے کے امکانات انتہائی کم ہوں انتہائی غیر ذمہ دارانہ عمل تھا۔ اپوزیشن پارٹی کی رکن پارلیمان ڈیانے ایبٹ کے مطابق، ’’شمیما بیگم کے بیٹے جاراح کی موت حکومت کے ضمیر پر ایک دھبہ ہے‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’وزیر داخلہ نے اس برطانوی بچے کو دھوکا دیا اور انہیں بہت سی باتوں کا جواب دینا ہو گا۔‘‘
دوسری طرف حکمران جماعت کنزرویٹیو پارٹی کے ایک رُکن نے بھی شمیما بیگم کی شہریت منسوخ کرنے کے حکومتی فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومے نے عوامیت پسندی کو اصولوں پر ترجیح دی۔
شمیما بیگم فروری میں شام کے ایک مہاجر کیمپ میں منظر عام پر آئیں۔ انیس سالہ شمیما بیگم نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ گھر واپس جانا چاہتی ہیں۔ تاہم بظاہر اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ دینے پر شرمندگی کا اظہار نہ کرنے کی وجہ سے برطانیہ میں ان پر تنقید کی گئی اور ان کے اہل خانہ نے بھی اس پر افسوس کا اظہار کیا۔
برطانوی وزیر داخلہ ساجد جاوید کے کہنے پر شمیما بیگم کی شہریت منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ساجد کے بقول وہ کوئی ایسا فیصلہ نہیں کریں گے، جس سے کسی شخص کی شناخت ہی ختم ہو جائے یعنی اس کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت ہی نہ ہو۔
شمیما بیگم کی برطانوی شہریت منسوخ کرنے کے فیصلے کے بعد ان کے والد احمد علی کا کہنا تھا کہ شمیما کے پاس دوہری شہریت نہیں ہے اور وہ صرف برطانوی شہری ہیں۔ یہ مقدمہ آج کل عدالت میں ہے۔
شمیما بیگم لندن کے بیتھنل گرین علاقے کے ایک اسکول کی ایک ذہین طالبہ تھی۔ تاہم، وہ فروری 2015 میں اپنی دو دیگر دوستوں کے ساتھ شام چلی گئی اور وہاں داعش کے کارکن ایک ڈچ شہری یاگو ریڈییک سے شادی کر لی۔ تین ہفتے قبل شمیما بیگم نے شام کے ایک کیمپ میں ایک بچے کو جنم دیا تھا۔ شمیما کا 27 سالہ شوہر بھی کُرد فورسز کی حراست میں ہے۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔