شناخت چھپانے کی صورت میں مہاجرین کا موبائل بھی ضبط
شمشیر حیدر
20 فروری 2017
پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے اکثر تارکین وطن حکام کو اپنی شناختی دستاویزات فراہم نہیں کرتے اور اکثر اپنی قومیت کے بارے میں بھی غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ جرمن حکام اب ایسے افراد کے موبائل فون سے ان کی شناخت کریں گے۔
تصویر: Diego Cupolo
اشتہار
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق وفاقی جرمن حکومت نے تارکین وطن کی شناخت یقینی بنانے کے لیے وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور ترک وطن (BAMF) کو پناہ کے متلاشی افراد کے موبائل فون تک رسائی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بی اے ایم ایف اب مہاجرین سے ان کا موبائل فون طلب کر سکے گا۔
جرمنی کے عوامی نشریاتی اداروں ڈبلیو ڈی آر اور این ڈی آر نے جرمن اخبار ’زود ڈوئچے سائٹنگ‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے تیار کیے گئے ایک قانونی مسودے میں یہ بات واضح طور پر درج کی گئی ہے۔ مسودے کے مطابق ان اقدامات کا مقصد ’’پناہ گزینوں کی لازمی وطن واپسی کا عمل بہتر بنانا ہے۔‘‘ وفاقی جرمن ریاست ہیسے کے وزیر اعلیٰ فولکر بوفیئر نے بھی اس منصوبے کی تصدیق کی ہے۔
اب تک پناہ گزینوں کی رضامندی کے بغیر بی اے ایم ایف کو ان کے فون تک رسائی حاصل نہیں تھی۔ نئے قانون کے اطلاق کے بعد جرمن اداروں کے لیے پناہ گزینوں کی اجازت طلب کرنا لازمی نہیں ہو گا۔ علاوہ ازیں جرمن اداروں کو اب تک صرف جرائم میں ملوث غیر ملکیوں کے موبائل فون کا ریکارڈ دیکھنے کی اجازت تھی لیکن نئے قوانین کے مطابق بی اے ایم ایف کے اہلکار کسی بھی تارک وطن سے موبائل فون طلب کر سکتے ہیں۔
جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ کے اندازوں کے مطابق گزشتہ موبائل فون یا اس طرح کے دیگر آلات، جنہیں ڈیٹا کیریئر بھی کہا جا سکتا ہے، کی مدد سے پچاس سے ساٹھ فیصد پناہ گزینوں کی حقیقی شناخت ممکن ہو سکتی تھی۔ یوں یہ تعداد ڈیڑھ لاکھ سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ جرمن حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ پناہ کے متلاشی افراد اپنے ذاتی کوائف اس لیے چھپاتے ہیں تاکہ انہیں جرمنی سے ملک بدر نہ کیا جا سکے۔ علاوہ ازیں تارکین وطن ممکنہ طور پر جرمنی میں مہیا کی جانے والی سماجی امداد کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے بھی اپنے بارے میں غلط معلومات مہیا کرتے ہیں۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس مقصد کے لیے بی اے ایم ایف کے ملک بھر میں موجود دفاتر میں نئے آلات اور سافٹ ویئرز کی تنصیب کی جائے گی۔ یوں بی اے ایم ایف کا عملہ روزانہ چوبیس سو سے زائد موبائل فون اور دیگر آلات سے حاصل کیے جانے والے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کر پائے گا۔
وفاقی ریاست ہیسے کے وزیراعلیٰ کا تاہم کہنا تھا کہ صرف ایسے تارکین وطن کے موبائل فون ضبط کیے جائیں گے جن کی شناخت غیر واضح ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ پناہ گزینوں کی حقیقی شناخت جاننے کے لیے ’’تمام تر وسائل کو بروئے کار لانا ضروری ہے۔‘‘
مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک میں بڑھتی ہوئی شورش مہاجرت کے عالمی بحران کا سبب بنی ہے۔ اس تناظر میں یورپ بھی متاثر ہوا ہے۔ آئیے تصویری شکل میں دیکھتے ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر یورپ نے کیا پالیسی اختیار کی۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL
جنگ اور غربت سے فرار
سن دو ہزار چودہ میں شامی بحران کے چوتھے سال میں داخل ہوتے ہی جہاں اس عرب ملک میں تباہی عروج پر پہنچی وہاں دوسری طرف انتہا پسند گروہ داعش نے ملک کے شمالی علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔ یوں شام سے مہاجرت کا سلسلہ تیز تر ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی تنازعات اور غربت نے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ان ممالک میں عراق، افغانستان، ارتریا، صومالیہ، نائجر اور کوسووو نمایاں رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پناہ کی تلاش
شامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد سن دو ہزار گیارہ سے ہی جنگ و جدل سے چھٹکارہ پانے کی خاطر ہمسائے ممالک ترکی، لبنان اور اردن کا رخ کرنے لگی تھی۔ لیکن سن دو ہزار پندرہ میں یہ بحران زیادہ شدید ہو گیا۔ ان ممالک میں شامی مہاجرین اپنے لیے روزگار اور بچوں کے لیے تعلیم کے کم مواقع کی وجہ سے آگے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ تب مہاجرین نے یورپ کا رخ کرنا بھی شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
طویل مسافت لیکن پیدل ہی
سن دو ہزار پندرہ میں 1.5 ملین شامی مہاجرین نے بلقان کے مختلف رستوں سے پیدل ہی یونان سے مغربی یورپ کی طرف سفر کیا۔ مہاجرین کی کوشش تھی کہ وہ یورپ کے مالدار ممالک پہنچ جائیں۔ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے سبب یورپی یونین میں بغیر ویزے کے سفر کرنے والا شینگن معاہدہ بھی وجہ بحث بن گیا۔ کئی ممالک نے اپنی قومی سرحدوں کی نگرانی بھی شروع کر دی تاکہ غیر قانونی مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/M. Cardy
سمندرعبور کرنے کی کوشش
افریقی ممالک سے یورپ پہنچنے کے خواہمشند پناہ کے متلاشی نے بحیرہ روم کو عبور کرکے اٹلی پہنچنے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ اس دوران گنجائش سے زیادہ افراد کو لیے کئی کشتیاں حادثات کا شکار بھی ہوئیں۔ اپریل سن 2015 میں کشتی کے ایک خونریز ترین حادثے میں آٹھ سو افراد ہلاک گئے۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ رواں برس اس سمندری راستے کو عبور کرنے کی کوشش میں تقریبا چار ہزار مہاجرین غرق سمندر ہوئے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
یورپی ممالک پر دباؤ
مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی خاطر یورپی یونین رکن ممالک کے ہمسایہ ممالک پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اس مقصد کے لیے ہنگری، سلووینیہ، مقدونیہ اور آسٹریا نے اپنی قومی سرحدوں پر باڑیں نصب کر دیں۔ پناہ کے حصول کے قوانین میں سختی پیدا کر دی گئی جبکہ شینگن زون کے رکن ممالک نے قومی بارڈرز پر عارضی طور پر چیکنگ کا نظام متعارف کرا دیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/B. Mohai
کھلا دروازہ بند ہوتا ہوا
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین کی یورپ آمد کے لیے فراخدلانہ پالیسی اپنائی۔ تاہم ان کے سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ میرکل کی اسی پالیسی کے باعث مہاجرین کا بحران زیادہ شدید ہوا، کیونکہ یوں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تحریک ملی کہ وہ یورپ کا رخ کریں۔ ستمبر سن دو ہزار سولہ میں بالاخر جرمنی نے بھی آسٹریا کی سرحد پر عارضی طور پر سکیورٹی چیکنگ شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
ترکی کے ساتھ ڈیل
سن دو ہزار سولہ کے اوائل میں یورپی یونین اور ترکی کے مابین ایک ڈیل طے پائی، جس کا مقصد ترکی میں موجود شامی مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنا تھا۔ اس ڈیل میں یہ بھی طے پایا کہ یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کیا جائے گا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس ڈیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈیل کی وجہ سے یورپ آنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan
مہاجرین کا نہ ختم ہونے والا بحران
مہاجرین کے بحران کی وجہ سے یورپ میں مہاجرت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی ممالک ابھی تک اس بحران کے حل کی خاطر کسی لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا کوٹہ سسٹم بھی عملی طور پرغیرمؤثر ہو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور دیگر کئی ممالک میں بدامنی کا خاتمہ ابھی تک ختم ہوتا نظر نہیں آتا جبکہ مہاجرت کا سفر اختیار کرنے والے افراد کی اموات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔